لاہور قلندرز کے قلندرانہ فیصلے۔۔۔
پاکستان سپر لیگ سیزن 4 کے دوبئ میں ہونے والے میچز کا پہلا مرحلہ پورا ہو چکا ہے اور ابھی تک کافی کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے ہیں۔امید ہے جیسے جیسے اس سیزن کے میچز ہوتے جائیں گے ہمیں مزید اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔
اگرچہ اس سیزن کے اپنے دوسرے میچ میں ہی لاہور قلندرز کی ٹیم کراچی کنگز کو ہرانے میں کامیاب ہوئی مگر پھر بھی اس وقت لاہور قلندرز کی ٹیم اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہوئے پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخر پر براجمان ہے۔اسے قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور کیونکہ ایسا لگتا ہےکہ ابھی تک بدقسمتی نے لاہور قلندرز کی ٹیم کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سابقہ سیزنز کی طرح اس سیزن کے آغاز پر ہی لاہور قلندرز ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ان کے کپتان اور ٹیم کے اہم رکن محمد حفیظ کراچی کنگز کے خلاف ہونے والے میچ میں اپنی گیند پر کیچ پکڑتے ہوئے زخمی ہو گئے اور پاکستان سپر لیگ کے باقی میچوں سے باہر ہو گئے۔اگر ہم پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن سے اب تک کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ ہر سیزن میں لاہور قلندرز کی ٹیم جس کھلاڑی پر زیادہ انحصار کرتی ہے وہ کھلاڑی یا تو ان فٹ ہو جاتے ہیں یا پھر کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر ٹورنامنٹ سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ چاہئے وہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے فاسٹ باؤلر مستفیز الرحمن ہوں یا ویسٹ انڈیز کے آندرے رسل، پاکستان کے یاسر شاہ ہوں یا محمد حفیظ یہ سب کھلاڑی بدقسمتی کا شکار ہوتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کے میچز مکمل نہیں کھیل سکے۔
اگر ایک طرف لاہور قلندرز کے کپتان محمد حفیظ کا ان فٹ ہونا لاہور قلندرز کی ٹیم کے لیے بدقسمتی ہے تو دوسری طرف یہ کسی کے لیے خوش قسمتی بھی ثابت ہوئی ہے ۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں سلمان بٹ کی جن پر قسمت کی دیوی ایک بار پھر مہربان ہوئی ہے اور ان کو حیران کن طور پر محمد حفیظ کے متبادل کے طور پر لاہور قلندرز کی ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جو میری نظر میں ایک قلندرانہ فیصلہ ہے۔ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے چھتیس سالہ سلمان بٹ کی پاکستان سپر لیگ میں شمولیت انتہائی حیران کن ہے انہوں نے اپنا آخری انٹرنیشنل میچ 2010 میں کھیلا تھا ۔ جس کے بعد میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر ہو گئےتھے۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں انہوں نے قائد اعظم ٹرافی کے میچز میں کچھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مگر پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیراہتمام ہونے والے ون ڈے کپ اور ٹی 20 کپ میں ان کی کارکردگی کچھ زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔میرے خیال میں اگر سلمان بٹ کی جگہ کسی نوجوان کھلاڑی کو موقع دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔ سلمان بٹ کی ٹیم میں شمولیت کے بعد لاہور قلندرز کے باقی کھلاڑیوں کا ان کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے اس کے لیے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا
لاہور قلندرز نے گراس روٹ لیول پر کافی کام کیا ہے جس سے کچھ اچھے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جن میں حارث روف ، محمد عرفان جونئیر اہم نام ہیں۔ میرے خیال میں اگر اسی روایت کو برقرار رکھا جاتا اور کسی نوجوان کھلاڑی کو موقع دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔
پہلے مرحلے کے بعد لاہور قلندرز کی ٹیم کو نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کورے اینڈرسن اور نیپال سے تعلق رکھنے والے سندیپ لیماچالے بھی ٹیم کو جوائن کر چکے ہیں جس سے لاہور قلندرز کی کارکردگی بہتر ہونے کا امکان ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ آخری اوور کروانے کے ماہر سمجھے جانے والے( لاسٹ اوور کنگ ) اعزاز چیمہ بھی لاہور قلندرز کی ٹیم کا حصہ ہیں اور میرے خیال میں ان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کو نظر میں رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ موقع ملنے پر وہ بھی لاہور قلندرز کے لیے کافی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اس سیزن میں لاہور قلندرز کی ٹیم کا حصہ بننے اے بی ڈی ویلیرز کو اب محمد حفیظ کی جگہ کپتانی کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے ان کی کپتانی میں لاہور قلندرز کی کیا پرفارمنس ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس دفعہ جس انداز سے لاہور قلندرز کی ٹیم کی ٹیم نے ابھی تک ہونے والے میچز کھیلےہیں اس سے لگتا ہے کہ لاہور قلندرز کی ٹیم اس بار اپنی مخالف ٹیموں کو دھمال ڈالنے پر لازمی مجبور کرے گی۔۔۔۔ اور لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ کی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے پی ڈی پی کا راگ الاپتی نظر آئے گی اور ٹیم پرفارمانس کی بجائے اپنے تیار کردہ ہیروں کو پاکستان کرکٹ کی خدمت گردانتی نظر آئے گی
اپنی رائے کا اظہار کریں