پاکستان سپر لیگ سیزن فائیو اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.فائنل میں کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو شکست دے کر پہلی مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کیا۔اس سیزن کا آغاز 20 فروری 2020 کو کراچی میں کوئٹہ اور اسلام آباد کے میچ سے ہوا تھا اور پھر کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر 15 مارچ کو کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈیٹرز کے میچ کے بعد ٹورنامنٹ کو ملتوی کردیا تھا۔اس کے بعد بہت سی خبروں،افواہوں اور مشوروں نے سر اٹھایا کوئی کہہ رہا تھا کہ ٹیبل ٹاپر ٹیم کو چیمپئن قرار دیا جائے کچھ لوگ اس وقت لیگ کو ملتوی کرنے کے حق میں نہیں تھے اور کہیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ صرف 4 میچز کے لیے دوبارہ تمام غیر ملکی کھلاڑیوں اور آفیشلز پاکستان لانے پر بہت زیادہ اخراجات کرنے دانشمندی کا فیصلہ نہیں۔لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی محنت سے یہ سب ممکن ہوگیا۔پاکستان سپر لیگ کا ایک اور سیزن کامیاب ثابت ہوا۔اب کچھ بات ہوجائے تمام فرنچائزز کی۔بلاشبہ تمام ٹیمیں اچھی ہیں اور انکے فینز اپنے کھلاڑیوں سے پیار کرتے ہیں۔لیکن ایک ایسی فرنچائز بھی ہے جس کی مقبولیت عوام میں دوسری تمام ٹیموں سے واضح طور پر زیادہ ہے اس ٹیم کی مقبولیت اس کے پلئیرز یا پرفارمنس کی وجہ سے بلکل بھی نہیں بلکہ تمام محبتیں ٹیم اونرز کی زندہ دلی اور دن رات کی انتھک محنت کی وجہ سے ہے جی ہاں میں بات کر رہا ہوں لاہور قلندرز اور ان کے اونرز رانا برادران کی۔فواد رانا،عاطف رانا اور ثمین رانا تمام انتہائی شاندار شخصیت کے مالک ہیں بالخصوص فواد رانا صاحب زندہ دلان لاہور کے حقیقی معنوں میں نمائندے ہیں وہ اپنی قلندرانہ سوچ اور خوش مزاجی کی وجہ سے عوام کے دلوں میں بستے ہیں ان کے فینز پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی موجود ہیں۔لاہور قلندرز کی مقبولیت کی دوسری بڑی وجہ انکا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہے وہ اس پروگرام کے ذریعے پورا سال عوام کے ساتھ رہتے ہیں۔تو آئیے لاہور قلندرز کے پس منظر کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔یہ فرنچائز پی ایس ایل کی دوسری مہنگی فرنچائز بن کر سامنے آئی کرکٹ تجزیہ نگاروں نے اس کے لیے بہت سے نام تجویز کیے لیکن انہوں نے ایک ایسا نام اختیار کیا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور پھر دیکھتے دیکھتے یہی نام اس کی اصل میں پہچان بن گیا چوکوں،چوراہوں،گلیوں اور بازاروں میں ہر جگہ اس کی بات ہوئی۔جتنا بحث و مباحثہ اور ہلہ گلہ اس ٹیم کی کٹ(یونیفارم) پر ہوا کسی دوسری ٹیم میں نظر نہیں آیا۔ پہلے سیزن کے لیے ساوتھ افریقی کوچ پیڈی اپٹن کے ہاتھ میں ٹیم کی کمان دی گئی۔کرس گیل،ڈی جے براوو, کیمرون ڈیلپورٹ،مستفیزالرحمان،عبدالرزاق اور عمر اکمل کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔اور قیادت کی زمہ داری اظہر علی کو سونپی گئی۔حیران کن طور پر اتنے بڑے ناموں کے باوجود ٹیم نے سینزن کا اختتام ٹیبل میں آخری نمبر پر کیا.دوسرے سیزن میں بھی پیڈی اپٹن کو کوچ برقرار رکھا گیا لیکن کپتان تبدیل تبدیل کردیا گیا اس بار کیوی لیجنڈ برینڈن میکولم کو ٹیم میں شامل کرنے کے ساتھ کپتان بھی بنا دیا گیا لیکن نتائج میں فرق نہ آیا۔تیسرے سیزن میں پاکستانی کوچ پر اعتماد کرنے کا سوچا گیا اور پیڈی اپٹن کو فارغ کرکے عاقب جاوید کو لایا گیا عاقب جاوید اور برینڈن میکولم کا کمبینشن بھی ٹیم کو راس نہ آیا۔چوتھے سیزن میں دنیائے کرکٹ کے عظیم بلے باز اے بی ڈویلیئرز کو ٹیم میں شامل کیا گیا اور عاقب جاوید کی سربراہی میں کپتانی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس سیزن میں 3 کپتانوں محمد حفیظ،اے بی ڈویلیئرز اور فخر زمان نے مختلف مواقع پر ٹیم کو لیڈ کیا لیکن قلندرز نتائج کو اپنے حق میں لانے میں ناکام رہے۔اور رواں برس پاکستان سپر لیگ سیزن فائیو میں بھی عاقب جاوید کی کوچنگ میں ٹیم ناکام لوٹ رہی ہے۔اتنی بڑی فرنچائز کا 5 سالوں سے مسلسل ناکام ہونا یقیناً تشویش کا باعث ہے۔یہ فرنچائز لوگوں کے دلوں میں بستی ہے اس کی شکست پر بہت زیادہ دل ٹوٹتے ہیں۔عاقب جاوید کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔کیونکہ ان کے کوچ بننے کے بعد ٹیم میں بہت زیادہ تبدیلیاں کی گئیں۔مختلف سینزنز میں بڑے پلیرز کو ٹیم میں شامل بھی کیا گیا اور کچھ بڑے ناموں کو سائیڈ لائن بھی کیا گیا۔گزشتہ 3 سینزنز میں کھلاڑیوں سے لے کر اسسٹنٹ کوچز تک سب تبدیل ہوئے لیکن اگر تبدیلی نہیں ہوئی تو وہ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے عاقب جاوید کی نہیں ہوئی۔ان کے کوچنگ دورانیہ میں لاہور قلندرز بہت سے تنازعات کا شکار رہی ہے عمر اکمل کے ساتھ ان کے ایشوز سے کون ناواقف ہے عمر اکمل کا بیٹنگ آرڈر بھی خراب کیا گیا عمر اکمل کی خراب فارم کو جواز بنا کے تیسرے ایڈیشن کے دوران ہی عمر اکمل کو ٹیم سے ڈراپ کردیا جبکہ عمر اکمل مجموعی طور پر قلندرز کا سب سے کامیاب بلے باز تھا۔خبریں موصول ہوئیں کہ موصوف نے کہا کہ جب تک میں کوچ ہوں عمر اکمل کو کبھی لاہور قلندرز کی ٹیم میں نہیں کھیلنے دوں گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوتھے سیزن میں عمر اکمل نے کوئٹہ گلیڈیٹرز کو اپنی اچھی کارکردگی سے چیمپئن بنوا دیا۔عاقب جاوید کا کوئی نقصان نہیں ہوا اگر نقصان ہوا تو لاہور قلندرز کا ہوا۔کیونکہ کوچ صاحب کو تو اپنا پوار معاوضہ مل گیا تھا۔ان کے بارے میں کہا گیا کہ جب کہ کوچ بنے تو ان کی اپنی کوئی خاص پلاننگ نہیں ہوتی تھی کبھی بھی یہ ٹیم کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔جو بھی برینڈن میکولم اور دوسرے غیر ملکی سینیئر پلیرز کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے۔کوچ کبیر خان کو بھی برینڈن میکولم کے الزام کہ وہ مخالف ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں کی وجہ سے تنگ کیا گیا وہ گراؤنڈ میں بھی نہیں آتے تھے۔کوچ عتیق الزمان کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔رضا حسن جیسے باصلاحیت اسپنر سے جان بوجھ کے پاوور پلے میں باؤلنگ کرا کے پھر ٹیم سے ڈراپ کردیا۔یہ بھی انکشاف ہوا کہ آل راؤنڈر بلاول بھٹی کو صرف اس لیے ڈراپ کیا گیا کیونکہ عاقب جاوید چاہتے تھے کہ ان کی جگہ کسی بیٹسمین کو ٹیم میں شامل کیا جائے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر سے رپورٹ تیار کروائی کہ بلاول بھٹی ان فٹ ہے۔
یہ رانا برادران کی قلندرانہ سوچ ہی ہے کہ مسلسل ناکامیوں کے باوجود عاقب جاوید کو فارغ نہیں کیا جا رہا لہذا عاقب جاوید کو اب مزید رانا برادران اور لاہور قلندرز کے شائقین کا امتحان نہیں لینا چاہیے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیں اور با عزت طریقے سے ٹیم کو الوداع کہہ دیں۔ورنہ جس دن فارغ کیا جائے گا تو پھر آپ کو زیادہ افسوس ہوگا۔کیونکہ جب عزت سے راستے الگ کیے جاتے ہیں تو تعلقات میں اخلاص باقی رہتا ہے اور جب اختلافات کی وجہ سے راستے الگ ہو جائیں تو نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتیں۔پھر ندامت اور شرمندگی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اب سارا دارومدار آپ پر ہے نظریں ملانے کے قابل رہنا ہے یا نظریں چرانے کے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں