لاہور قلندرز، رانا صاحب تھک ہم بھی گئے ہیں
پاکستان سپر لیگ کا دوسرا مرحلہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی (جو روشنیوں کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) میں اس وقت پورے جوش و خروش سے کھیلا گیا اور اب تک ہونے والے تمام میچوں میں جس طرح سے بین الاقوامی کرکٹ کو ترسے ہوئے تماشائیوں نے میدان کا رخ کیا ہے اس پر تمام پاکستانی اور خاص کر اہل کراچی داد کے قابل ہیں۔اس بار پاکستان سپر لیگ کی خاص بات تقریبا تمام غیر ملکی کھلاڑیوں کا پاکستان آنا ہے جو پاکستان سپر لیگ اور پاکستان کرکٹ کے لیے بہت خوش آئند بات ہے
پاکستان سپر لیگ کے اس سیزن میں اگر ہم ٹیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ ہر سیزن طرح اس سیزن میں بھی پوائنٹس ٹیبل کی صورت حال کچھ مختلف نہیں اور اس دفعہ بھی پچھلے تین سالوں کی طرح لاہور قلندرز کی ٹیم اپنی من پسند پوزیشن( لگتا اب ایسے ہی ہے) برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر چھٹی اور آخری پوزیشن پر برا جمان ہے ۔ اس سیزن کے شروع ہونے سے پہلے حسب روایت لاہور قلندرز کی ٹیم سے شائقین کرکٹ کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور پھر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ امیدیں دعاوں میں بدلتی گئیں اور پھر آخر لاہور قلندرز کی ٹیم نے ثابت کر دیا کہ جہاں کا خمیر ہو وہیں پر آ کر ٹھہرتا ہے۔
لاہور قلندرز کی ٹیم اس بار پاکستان سپر لیگ سے باہر ہوئی تو لاہور قلندرز کی ٹیم کے مالک رانا فواد کا ضبط بھی جواب دے گیا اور انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ وہ ہار ہار کر تھک گئے ہیں اور ان میں مزید ہار برداشت کرنے کی ہمت نہیں۔لاہور قلندرز کے ہارنے کے بعد لاہور قلندرز کی ٹیم کے مینجر اور کپتان نے جس طرح کی پریس کانفرنس کی وہ کافی مضحکہ خیز تھی اور ایسے لگا اس ہار کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ جس پر میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آج یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوگیا
لاہور قلندرز کی ٹیم کے پاکستان سپر لیگ کے پہلے مرحلے ہی سے باہر ہونے پر بہت سے کرکٹ ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا جس میں سب کے نزدیک اہم وجہ لاہور قلندرز کی ٹیم کے کوچ عاقب جاوید ہیں جو میرے نزدیک بھی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ ( شاید سب سے بڑی وجہ ) ہے اور اب تو تیسرے سیزن میں لاہور قلندرز کی ٹیم کا حصہ رہنے والے کوچز کبیر خان اور عتیق الزمان بھی کھل کر عاقب جاوید کے کارناموں کو بیان کر رہے ہیں کہ کس طرح سے کوچنگ سٹاف کا حصہ ہونے کے باوجود ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا اور سیزن کے ختم ہوتے ہی ان کو دودھ میں سے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا۔ اسے لاہور قلندرز کی بدقسمتی کہیں یا کچھ کہ وہ ان دونوں محنتی
کوچز کو ساتھ رکھنے کے باوجود ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جب کہ دوسرے ممالک کی ٹیمیں ان کی خدمات سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اور وہ ان ٹیموں کو فتوحات سے بھی ہم کنار کروا رہے ہیں
ان چار سالوں میں لاہور قلندرز کی ٹیم میں کوئی خاص قسم کی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی سوائے ایک دو بڑے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے اور پھر ان کی نام کو کیش کروانے کے۔ جب دوسری ٹیمیں اچھے کھلاڑیوں کی تلاش میں ہوتی ہیں تو عاقب جاوید اینڈ کمپنی مزے سے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ عاقب جاوید کی پاکستان سپر لیگ کے لیے لاہور قلندرز کی ٹیم کے انتخاب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس بار انہوں نے لاہور قلندرز کی ٹیم میں چار وکٹ کیپرز کا انتخاب کیا جو کافی محضکہ خیز بات ہے۔ یاسر شاہ کا ہر سال انتخاب بھی کافی حیران کن ہے اور پھر جس طرح سے اعزاز چیمہ کو باہر بیٹھا کر یاسر شاہ سے نئی گیند کروائی گئی وہ بھی کافی حیران ہے۔ یاسر شاہ کے بارے میں ایک ناقص عقل رکھنے والے انسان کو بھی علم ہو گا کہ وہ بیس اوورز کے میچوں کے لیے موزوں انتخاب نہیں مگر داد دینی ہو گی عاقب جاوید کی جو ہر سال ان کو منتخب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ
عاقب جاوید کے ساتھ ساتھ ثمین رانا کا لاہور قلندرزکا مینجر ہونا بھی لاہور قلندرز کی ناکامیوں کی ایک وجہ ہے۔ کسی ٹیم کا مینجر ہونا اور مالک ہونا دو مختلف چیزیں ہیں مگر جب یہ دونوں چیزیں یکجا ہو جائیں تو ٹیم کی کارکردگی لازمی متاثر ہوتی ہے اور لاہور قلندرز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میچ کے لیے ناقص حکمت عملی، کھلاڑیوں کا غلط انتخاب ،میچ کے لیے غلط گیارہ کھلاڑیوں کا انتخاب اور پھر غلط کپتانی بھی لاہور قلندرز کی ٹیم کے ہارنے کی وجوہات ہیں ۔لاہور قلندرز کے مینجر ثمین رانا نے لاہور قلندرز کی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجہ پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن میں کھلاڑیوں کے چناؤ میں لاہور قلندرز کی ٹیم کا آخری نمبر ہونا قرار دیا ہے جو کہ میرے نزدیک کوئی اہم وجہ نہیں اگر پہلے سیزن میں لاہور قلندرز کا آخری نمبر تھا تو باقی کے تین سیزن میں کھلاڑیوں کے چناؤ کے لیے پہلا نمبر لاہور قلندرز کا تھا مگر عاقب جاوید اینڈ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے لاہور قلندرز کی ٹیم اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بات بھی حیران کن ہے کہ جب ایک کھلاڑی لاہور قلندرز کی ٹیم میں ہوتا ہے تو وہ بالکل پرفارمنس نہیں دیتا اور دوسری ٹیمیوں میں وہ ہی کھلاڑی اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں جب کہ میرے نزدیک یہ بات بالکل حیران کن نہیں کیوں کہ لاہور قلندرز کی موجودہ ٹیم انتظامیہ سے اس بات کی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی بھی کھلاڑی سے کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کروا سکیں۔ جس طرح کا سلوک لاہور قلندرز کی ٹیم انتظامیہ( کوچ ، مینجر ) نے پہلے سیزن میں اظہر علی اور پھر عتیق الزمان اور کبیر خان کے ساتھ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
لاہور قلندرز کی انتظامیہ اپنے پی ڈی پی کا بہت فخر سے اظہار کرتی ہے مگر آج تک ان کے اس پروگرام سے میرے خیال میں کوئی ایک بھی اچھا بیٹسمین سامنے نہیں آیا اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے کھلاڑیوں کا انتخاب صرف اور صرف ویڈیو دیکھ کر کیا جاتا ہے اب اگر کھلاڑیوں کا انتخاب ویڈیو دیکھ کر ہو گا تو اس کے لیے ویڈیو گیمز کے لیے ہی بیٹسمین ملیں گے پاکستان سپر لیگ یا پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے نہیں۔ عاقب جاوید لاہور قلندرز کی ٹیم میں آنے والے ہر نئے فاسٹ باؤلر کا بہت فخر سے بتاتے ہیں کہ اس باؤلر کو انہوں نے ڈھونڈا ہے حالانکہ کہ کئی بار حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ویسے عاقب جاوید صاحب کیا ہی اچھی بات ہوتی اگر ان چار سالوں میں آپ کم از کم ایک ایسا کھلاڑی یا بیٹسمین پاکستان کرکٹ اور لاہور قلندرز کی ٹیم کو دیتے جس کو دیکھ کر دوسرے لوگ کہتے کہ یہ ہیرا عاقب جاوید نے ڈھونڈا ہے اور آپ کو اپنی تعریف خود نا کرنا پڑتی مگر کیا کریں آپ تو لاہور قلندرز کے پی ڈی پی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ مجھ جیسا انسان جو کرکٹ کا انتہائی کم شعور رکھتا ہے وہ بھی کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ “اونچی دوکان پھیکا پکوان”
میں بھی سابق کرکٹرز کی طرح رانا فواد صاحب کویہ ہی مشورہ دوں گا کہ بڑے ناموں کی بجانے ایک متوازن ٹیم کا انتخاب کریں اور آزمائے ہوئے کارتوسوں کو اور مت آزمائیں ویسے بھی پچھلے چار سال سے آپ نے ایک چیز کے سوائے سب چیزیں ( کھلاڑی ، کپتان ) تبدیل کر کے دیکھ لیا ہے مگر نتیجہ وہ ہی نکلا ہے تو اس دفعہ کوچ کو ہی تبدیل کر کے دیکھ لیں ہوسکتا ہے کسی قلندر کی دعا آپ کے کام آ جائے
اپنی رائے کا اظہار کریں