جنید جمشید کرگیا وہ- ملا نہ کر پایا جو برسوں میں
یہ واقعہ جنوری دو ہزار دس کا جب نیوز ون ٹی وی کی جانب سے مشتاق احمد سے رابطہ کیا کہ آپ کا انٹرویو کرنا ہے، جوانی کے دوست مشی نے کہا پہلے میرے ساتھ چلو جنید بھائی کی نصرت لے کر جانی ہے، اس وقت عجب کیفیت کا شکار ہوگیا کہ آج جنید جمشید سے ملاقات ہوگی،ہم دونوں ماڈل ٹاون جی بلاک لاہور کی مسجد میں نصرت لے کر پہنچے جہاں ظہرانہ پہلے سے جاری تھا اور جنید جمشید اپنے ہاتھوں سے سب کو کھانا ڈال ڈال کر دے رہے تھے، مشتاق کی نصرت بھی کھانے کا حصہ بنا لی گئی، طعام کے بعد ہلکی پھلکی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگیا
تبلیغی جماعت میں شامل لوگوں کا بغور جائزہ لیتا رہا، سب ایک سے بڑھ کر ایک نامی گرامی شخصیت گروپ میں شامل تھا، سوال کرنے کی عادت مسجد میں بھی نہ گئی، میں نے جمشید بھائی سے پوچھا آپ کے گروپ میں کوئی غریب آدمی کیوں نہیں؟ آپ عام علاقوں میں تبلیغ کے لیے کیوں نہیں جاتے؟ سوال کرلیا تو مگر اندر سے پوری طرح ہل گیا کہ جنید جمشید ناراض نہ ہوجائیں- ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلی اور میرا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں سمو لیا اور بولے میاں یہ
سوال درجنوں بار ہو چکا ہے، آپ بتاو کہ ایک امیر آدمی غریب آدمی کی بات سنتا ہے پاکستان میں اور کیا غریب آدمی امیر کو دیکھ کر اچھا محسوس کرتا ہے؟ میں بولا نہیں تو کہنے لگے ہم تشکیل ہی ایسی کرتے ہیں کہ گروپ جس علاقے میں جائے وہاں کے لوگ اس کی زبان، بود و باش اور انداز تکلم سے آشنا ہوں تاکہ اللہ کا پیغام ٹھیک لوگوں کے ذریعے پہنچانے میں آسانی ہو، جنید جمشید نے جس اپنائیت اور محبت سے میرے سوال کا جواب اور ان کے ہاتھوں کا لمس چھ سال بیت جانے کے بعد بھی محسوس کرتا ہوں
ٹیسٹ کرکٹر سعید انور کی زندگی میں انقلابی تبدیلی اس وقت جب ان کی بیٹی اچانک اللہ کو پیاری ہوگئی، بیٹی کے بچھڑنے کا غم سعید انور کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑ گیا اور دنیا کے دھندے کو ایک سائیڈ پر رکھ اللہ کی رضا کی راہ پر چل پڑے، سعید انور کے اس سفر خیر میں جنید جمشید ان کے حقیقی رہنما بنے اور کھلنڈرے کھلاڑی کی ایسی اصلاحی کوچنگ کی کہ ان کو اللہ کی راہ میں چلنے والے ہی دیکھ سکتے ہیں
سابق کپتان انضمام الحق اور مشتاق احمد جو کہ سعید انور کے بہت قریبی دوست ہیں، سعید انور کی زندگی میں سکون اور اطمینان قلب کا بہت قریب سے مشاہدہ کر رہے تھے، شاید دونوں کے پاس دولت کے انبار تو تھے مگر اطمینان نہیں، پھر سب نے دیکھا کہ انضمام الحق اور مشتاق احمد دھیرے دھیرے سعید انور کے شریک سفر بن گئے، یہاں بھی جنید جمشید ہی وہ شخصیت تھے جو ایک ماں کی طرح جی ہاں یقین کریں ماں کی طرح ان کھلاڑیوں کی تربیت میں جتے نظر آتے رہے اور ایک وقت وہ بھی آیا جب قومی ٹیم کی نماز باجماعت پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں مگر انضمام الحق نے آج تک وہ سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا، پاکستانیوں کو تنقید کا موقع چاہیے، انگلینڈ نے مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق کو کوچنگ کا موقع دیتے وقت ان کی داڑھی نہیں دیکھی اور نہ ہی انکی مزہبی مصروفیات پر اعتراض کیا
دنیائے کرکٹ کا بے نظیر بلے باز مسیحی پاکستانی کرکٹر یوسف یوحنا تینوں کھلاڑیوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا چپکے سے مشاہدہ کر رہے تھے اور ان کو احساس ہوتا چلا گیا کہ اسلام ہی دین فطرت ہے، میڈیا پر افواہوں کا سلسلہ جاری تھا کہ یوسف یوحنا اسلام قبول کرنے کو ہیں مگر مصلحتا اس سے انکار کیا جاتا رہا، شاید جنید جمشید اور سعید انور تبدیلی کے خواہاں یوسف کو تکمیل کا کورس کروا رہے تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ اب اس کا عقیدہ پختہ اور ناقابل شکست ہوچکا ہے تو اعلان کردیا گیا یوسف یوحنا آج سے محمد یوسف ہونگے، شدید ترین گھریلو اور معاشرتی تنقید محمد یوسف کے ایمان کو متزلزل کرنے میں ناکام رہے
شاہد آفریدی اور شعیب اختر کی عالمی شہرت سے بھلا کون انکاری ہو سکتا ہے؟ اور دونوں اپنے اپنے شعبوں میں خاص شہرت کے مالک ہیں، جنید جمشید ایک عرصہ سے ان سٹارز کو راہ حق کے سفر میں اپنا ہمسفر بنانے میں جتے ہوئے تھے، دونوں کو حجاز مقدس لے جانے میں کامیاب ہوگئے مگر ابھی دونوں کھلاڑیوں کی اوور ہالنگ کا سلسلہ جنید جمشید نے شروع کیا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ جنید جمشید کے اچانک چلے جانے کیا تنہا سعید انور اس سفر کو جاری رکھ پائیں گے ؟ کیونکہ جنید نے اپنے آپ کو دنیاوی تقاضوں کے مطابق لے کر چلتے تھے جبکہ سعید انور اب معاشرتی مادیت مشینیری سے بہت دور جا چکے ہیں، انضمام الحق اور مشتاق احمد میں وہ خوبیاں تو موجود ہیں مگر جنید جمشید جیسا انداز تکلم اور دوستانہ رویہ ان ہی کا خاصا تھا،
مجھے اندازہ ہے کہ دوست احباب مجھے ضرور کہیں گے کہ تم تو مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہو تو پھر جنید جمشید کی یاد اتنے الفاظ کیسے لکھ لیے، تو جناب پہلے سے آپ کے سوال کا جواب دیے دیتا ہوں کہ اس خطے میں اپنے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اولیا اللہ نے اپنی خانقاہوں پر حقوں کا انتظام محض اس لیے کیا کہ اسی بہانے لوگ بات سننے آ جایا کریں گے، کسی نے محفل سماع کو ذریعہ کشش بنایا تو مجھے یہ کہنے پر کوئی عار نہیں کہ جنید جمشید بھی عہد جدید کے تقاضوں کو پورا کرکے دنوں میں وہ نتائج حاصل کر لیتے تھے جو ملا برس ہا برس کی ڈیوٹی دینے کے باوجود قاصر رہے، اگر چند سلفیاں بنوانے سے نوجوان نسل راہ حق پہ آجائے تو یہ سودا گھاٹے کا نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں