پاکستان کرکٹ کے سابق کوچ جیسن گلپسی نے عاقب جاوید کو سازشی اور جوکر قرار دے دیا
کرکٹ کی دنیا میں جہاں کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تبصرے عام ہیں، وہیں کوچز اور انتظامیہ کے درمیان تنازعات بھی اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔ مگر حال ہی میں پاکستان کرکٹ سے وابستہ ایک ایسا بیان سامنے آیا ہے جس نے نہ صرف پرستاروں بلکہ ماہرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔ پاکستان کی قومی ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ اور آسٹریلیا کے سابق فاسٹ بولر جیسن گلپسی نے پاکستان کے معروف کوچ اور سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کو “سازشی” اور “جوکر” جیسے الفاظ سے نوازا ہے۔ یہ بیان نہ صرف دونوں شخصیات کے درمیان کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ پاکستان کرکٹ کے اندرونی محاذوں پر ایک بار پھر تنقیدی سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔
جیسن گلپسی نے 2021 سے 2023 تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کا دور کوچنگ کچھ یادگار فتوحات اور کچھ متنازع فیصلوں سے بھرا رہا۔ دوسری جانب، عاقب جاوید پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا ایک اہم نام ہیں۔ وہ 1992 کے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے، اور بعد ازاں انہوں نے متعدد ٹیموں جیسے کہ پاکستان انڈر-19، لاہور قلندرز، اور یواے ای کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی۔ عاقب کو اپنی سخت طبیعت اور تنقیدی انداز کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جو اکثر میڈیا میں بیان دینے سے گریز نہیں کرتے۔
گلپسی اور عاقب کے درمیان تنازعہ کی شروعات اُس وقت ہوئی جب عاقب جاوید نے ایک انٹرویو میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی کوچنگ سیٹ اپ پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ “غیر ملکی کوچز کو ترجیح دینا مقامی صلاحیتوں کو نظرانداز کرنا ہے۔” انہوں نے گلپسی کی کوچنگ پالیسیوں پر بھی سوال اٹھائے تھے، خاص طور پر نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع نہ دینے کے حوالے سے۔ گلپسی نے اس کے جواب میں کسی عوامی ردعمل سے گریز کیا تھا، مگر حالیہ دنوں میں ایک پوڈ کاسٹ انٹرویو کے دوران انہوں نے عاقب پر شدید تنقید کر دی۔
اپنے انٹرویو میں جیسن گلپسی نے کہا کہ “عاقب جاوید ہمیشہ سے ہی پی سی بی کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں بورڈ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔” گلپسی کے مطابق، عاقب کی تنقیدیں محض “شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ” ہیں، اور وہ کرکٹ کی بجائے اپنی ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ “عاقب ایک جوکر ہیں جو صرف تماشا دکھانے آتے ہیں۔”
گلپسی کے بیان کے بعد عاقب جاوید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “جیسن گلپسی کو پاکستان کرکٹ میں اپنی ناکامیوں کا احساس ہو گیا ہے، اس لیے وہ مجھے نشانہ بنا رہے ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ “میں نے کبھی بھی کسی سازشی ایجنڈے پر کام نہیں کیا۔ میری تنقید ہمیشہ تعمیری رہی ہے، جبکہ گلپسی کا دور کوچنگ پاکستان کرکٹ کے لیے مایوس کن تھا۔” عاقب نے یہ بھی اشارہ کیا کہ گلپسی کے دور میں نوجوان کھلاڑیوں کو نظرانداز کیا گیا، جبکہ ان کی جگہ نااہل کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔
دونوں کوچز کے درمیان یہ جنگ جاری ہے، مگر پی سی بی نے اب تک اس معاملے پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ کئی سابق اور موجودہ کھلاڑیوں سے بھی توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس تنازعے پر اپنی رائے دیں گے، لیکن فی الحال بیشتر نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر پرستاروں کی رائے منقسم ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ عاقب جاوید کو ہمیشہ سے ہی غیر ملکی کوچز پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ دوسرے گلپسی کے مؤقف کو درست قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں کوچز اور کھلاڑیوں کے درمیان تنازعات نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی جاوید میانداد، وقار یونس، اور محمد حفیظ جیسے کوچز پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ گلپسی کا یہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلپسی کا عاقب کو “جوکر” کہنا شاید ان کی ذاتی ناراضی کا اظہار ہے، جو عاقب کی جانب سے مسلسل تنقید کے بعد سامنے آیا ہو۔ دوسری جانب، عاقب جاوید کا پی سی بی کے اندر اثر و رسوخ بھی ایک حقیقت ہے، جو کئی بار کوچنگ عہدوں کے انتخاب میں نظر آیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے اندرونی محاذوں پر یہ تنازعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انتظامیہ اپنے اہلکاروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ غیر ملکی کوچز کو ترجیح دینے کی پالیسی اکثر مقامی ماہرین کو ناراض کرتی ہے، جبکہ دوسری طرف غیر ملکی کوچز کو مقامی ثقافت اور چیلنجز کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ یہ ٹکراؤ نہ صرف کوچز بلکہ کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔
جیسن گلپسی اور عاقب جاوید کے درمیان یہ لفظی جنگ پاکستان کرکٹ کے لیے کسی بھی طرح مفید نہیں۔ کوچز کے درمیان کشیدگی کا براہ راست اثر کھلاڑیوں پر پڑتا ہے، جو پہلے ہی غیر مستحکم پرفارمنز کا شکار ہیں۔ اگر پی سی بی نے فوری طور پر اس معاملے پر قابو نہ پایا، تو یہ تنازعہ ٹیم کی یکجہتی کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوچز اور انتظامیہ اپنے اختلافات کو ذرائع ابلاغ کی بجائے میز مذاکرات پر حل کریں
اپنی رائے کا اظہار کریں