کیا بھارت کی کرکٹ میں اجارہ داری مستقبل میں بھی برقرار رہ سکے گی؟
کرکٹ کا یہ کھیل جہاں جذبات اور جوش سے بھرپور ہوتا ہے، وہیں اس میں حکمت عملی، محنت، اور مستقل مزاجی کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی 2025 نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ بھارت کرکٹ کی دنیا میں ایک طاقتور نام ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم نے نہ صرف اپنی برتری قائم کی بلکہ دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں تمام میچز کھیل کر یہ واضح کر دیا کہ وہ کسی بھی حالات اور کسی بھی مقام پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہے۔ یہ ٹورنامنٹ جہاں بھارت کے لیے ایک نئی کہانی تھی، وہیں دوسری ٹیموں کے لیے بھی ایک سبق تھا کہ کامیابی کے لیے صرف صلاحیت ہی کافی نہیں، بلکہ منصوبہ بندی اور ٹیم اسپرٹ بھی ضروری ہے۔
چیمپیئنز ٹرافی 2025 کی شروعات سے ہی بھارت نے اپنی طاقت کا لوہا منوانا شروع کر دیا تھا۔ گروپ مرحلے کے پہلے میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلتے ہوئے بھارت نے 320 رنز کا بڑا اسکور بنایا، جس میں روہت شرما کی شاندار سنچری نے دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ جواب میں جنوبی افریقہ کی ٹیم محض 250 رنز پر ہی محدود رہی۔ یہ میچ بھارت کے لیے صرف ایک جیت نہیں تھی، بلکہ ایک پیغام تھا کہ وہ اس ٹورنامنٹ کو اپنے نام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ دبئی کی پچ، جو عام طور پر اسپنرز کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے، پر بھارتی بلے بازوں نے تیزی سے اپنے آپ کو ڈھال لیا۔ ویرات کوہلی، کے ایل راہول، اور شیوبمن گل جیسے کھلاڑیوں نے نہ صرف اسپن کو سمجھا بلکہ اسے اپنے حق میں استعمال کیا۔
دوسرے میچ میں آسٹریلیا کے خلاف مقابلہ ہوا، جو ہمیشہ سے بھارت کا ایک سخت حریف رہا ہے۔ لیکن اس بار بھارت نے اپنی بالنگ اٹیک کی طاقت کو اجاگر کیا۔ جسپریت بمراہ، محمد شامی، اور کلدیپ یادیو نے آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن کو 190 رنز پر محدود کر دیا۔ جواب میں بھارت نے صرف 30 اوورز میں ہی یہ اسکور حاصل کر لیا۔ یہ میچ بھارت کی بالنگ اور بیٹنگ دونوں شعبوں میں مکمل کنٹرول کو ظاہر کرتا تھا۔ دبئی اسٹیڈیم کی پچ پر تیز گیند بازوں کی کارکردگی عام طور پر محدود ہوتی ہے، لیکن بھارتی پاسبانوں نے اپنی لائن اور لینتھ کو اتنا بہتر بنایا کہ آسٹریلیا کے تجربہ کار بلے باز بھی ان کے آگے بے بس نظر آئے۔
گروپ مرحلے کے آخری میچ میں بھارت کا سامنا پاکستان سے ہوا۔ یہ میچ ہمیشہ سے جذباتی اور دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ لیکن اس بار بھارت نے نہ صرف اپنے جذبات پر کنٹرول کیا بلکہ پاکستان کو 80 رنز سے شکست دے کر سیمی فائنل کے لیے اپنی جگہ پککی بنائی۔ ہاردک پانڈیا کی آل راؤنڈ پرفارمنس نے اس میچ کو یادگار بنا دیا۔ انہوں نے 70 رنز کی تیز اننگز کھیل کر بھارت کو 300 تک پہنچایا، اور پھر بالنگ میں تین وکٹیں لے کر پاکستانی ٹیم کو 220 رنز پر ہی محدود کر دیا۔ یہ میچ بھارت کی ٹیم اسپرٹ اور کپتان روہت شرما کی قیادت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
سیمی فائنل میں بھارت کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوا، جو گروپ مرحلے میں اپنے مضبوط پرفارمنس کی وجہ سے سیمی فائنل میں پہنچا تھا۔ یہ میچ بھارت کے لیے ایک اور چیلنج تھا، کیونکہ انگلینڈ کی ٹیم میں بین اسٹوکس، جو روٹ، اور جوفرا آرچر جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ لیکن بھارت نے اپنی فیلڈنگ اور بالنگ میں چمکدار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انگلینڈ کی ٹیم کو 240 رنز پر آل آؤٹ کرنے کے بعد، بھارت نے صرف 40 اوورز میں ہی یہ اسکور حاصل کر لیا۔ شیوبمن گل کی 90 رنز کی پرسکون اننگز نے انگلینڈ کی تمام حکمت عملیوں کو خاک میں ملا دیا۔
فائنل میچ میں بھارت کا سامنا نیوزی لینڈ سے ہوا، جو اپنی مستحکم کارکردگی کی وجہ سے فائنل تک پہنچا تھا۔ نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، لیکن بھارتی بولرز نے انہیں 260 رنز پر محدود کر دیا۔ محمد سراج نے چار وکٹیں لے کر نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن کو کبھی بھی سکون نہیں لینے دیا۔ جواب میں بھارت نے ویرات کوہلی کی 110 رنز کی شاندار سنچری کی بدولت صرف 45 اوورز میں ہی یہ اسکور حاصل کر لیا۔ یہ فتح نہ صرف بھارت کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا، بلکہ اس نے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کو اپنے نام کرنے والی ٹیم کے طور پر اپنی شناخت کو مزید مضبوط کیا۔
بھارت کی اس کامیابی کے پیچھے کئی اہم عوامل کارفرما تھے۔ سب سے پہلے تو ان کی ٹیم سلیکشن اور پلاننگ بے مثال تھی۔ ہر کھلاڑی کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق موقع دیا گیا، اور کپتان روہت شرما نے ہر میچ میں ٹیم کو متحد رکھا۔ دوسری جانب، کوچنگ اسٹاف کی حکمت عملی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ دبئی کی پچ کے حالات کو سمجھتے ہوئے، ٹیم مینیجمنٹ نے اسپنرز اور آل راؤنڈرز پر توجہ دی، جو اس مقام پر کامیابی کی کنجی ثابت ہوئے۔
دوسرا اہم پہلو بھارت کی فٹنس اور ذہنی مضبوطی تھی۔ ٹورنامنٹ کے دوران کسی بھی بھارتی کھلاڑی کو زخمی ہونے یا تھکن کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جو ان کی فٹنس ٹیم کی محنت کو ظاہر کرتا ہے۔ ذہنی طور پر بھی کھلاڑیوں کو کوچز اور سپورٹ اسٹاف کی جانب سے مسلسل سپورٹ ملا، جس نے انہیں دباؤ کے لمحات میں بھی پرسکون رہنے میں مدد دی۔
تیسرا اہم عنصر دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے حالات سے مکمل ہم آہنگی تھی۔ بھارت نے اس مقام کو اپنا گھر بنا لیا تھا۔ پچ کی رفتار، اسپن کے امکانات، اور فیلڈ کی حدود کو سمجھتے ہوئے، بھارتی کھلاڑیوں نے ہر میچ میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کیا۔ مثال کے طور پر، شیوبمن گل اور رویندر جڈیجا جیسے اسپنرز نے دبئی کی پچ پر اپنی بالنگ کو اتنا موثر بنایا کہ مخالف ٹیموں کے لیے رنز بنانا مشکل ہو گیا۔
بھارت کی اس کامیابی نے کرکٹ کی دنیا کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا کوئی ٹیم ان کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہے؟ بھارت نے نہ صرف اپنی بیٹنگ، بالنگ، اور فیلڈنگ میں توازن پیدا کیا ہے، بلکہ وہ ہر میچ میں ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ اترتے ہیں۔ ان کی یہ کامیابی صرف ایک ٹورنامنٹ تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔
لیکن کیا بھارت کی یہ اجارہ داری مستقبل میں بھی برقرار رہ سکے گی؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا۔ فی الحال، بھارت نے جو معیار قائم کیا ہے، وہ دوسری ٹیموں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ پاکستان، آسٹریلیا، انگلینڈ جیسی ٹیموں کو اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے، کوچنگ اسٹاف کو جدید بنانے، اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
چیمپیئنز ٹرافی 2025 کی کہانی بھارت کی عظمت کی کہانی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ کامیابی کے لیے محنت، لگن، اور منصوبہ بندی کا ہونا ضروری ہے۔ دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں ان کی یہ کامیابی نہ صرف ان کے کھیل کو بلکہ ان کے عزم کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا دوسری ٹیمیں اس معیار کو چھو سکیں گی یا بھارت اپنی اجارہ داری کو مزید مضبوط بنائے گا۔
“کامیابی وہ نہیں جو قسمت سے مل جائے، بلکہ وہ ہے جو محنت سے حاصل کی جائے۔”
اپنی رائے کا اظہار کریں