بھارتی میچ اور ایمپائر پال رائفل لازم و ملزوم – آخر کیوں ؟
کرکٹ کے نام پر جب بھی بھارت کا کوئی اہم میچ ہوتا ہے، تو ایک ہی نام گونجتا ہے—پال رائفل۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پال رائفل اتنا بے مثال امپائر ہے کہ ہر بار اسی کو چنا جائے، یا پھر یہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) کی وہ “سٹیجنگ” ہے جس کے پیچھے کچھ اور ہی کھیل چل رہا ہے؟ کیا بھارت جیسے ملک میں جہاں لاکھوں تماشائی اور کروڑوں ٹی وی دیکھنے والے ہر فیصلے کو عدالتوں کی طرح پرکھتے ہیں، وہاں ایک ہی غیر ملکی امپائر کا بار بار چنا جانا کھیل کی ساکھ کے لیے خطرناک نہیں؟
پال رائفل کو جب بھی بھارت کے میچوں میں دیکھا جاتا ہے، تو اکثر یہی دلیل دی جاتی ہے کہ وہ سابق کھلاڑی ہیں اور انہیں میدان کا تجربہ ہے۔ لیکن کیا صرف کھلاڑی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امپائرنگ میں بھی کامل ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر شین وارن، سچن ٹنڈولکر، یا راہول ڈریوڈ جیسے لیجنڈز کو کیوں امپائر بننے کا موقع نہیں دیا گیا؟ کیا ICC کی “سینیارٹی” کی پالیسی محض چند ناموں کو ہی آگے بڑھانے کا بہانہ ہے؟ رائفل کا کریئر دیکھیں تو وہ بطور کھلاڑی بھی کوئی شاندار ریکارڈ نہیں رکھتے تھے۔ تو کیا امپائرنگ میں ان کی ترقی کا راز صرف ICC کی “پٹاری” میں چھپا ہوا ہے؟
غیر جانبداری کا لیبل لگا کر پال رائفل کو ہر میچ میں ٹھونسنا ICC کا پسندیدہ طریقہ کار لگتا ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ غیر جانبداری ایک افسانہ نہیں؟ 2022 کے T20 ورلڈ کپ کے دوران بھارت اور پاکستان کے میچ میں جب رائفل نے ایک کلوز LBW کیس میں ڈی آر ایس کو نظرانداز کیا، تو کیا یہ فیصلہ واقعی ٹیکنالوجی کی غلطی تھی یا پھر کسی اور کی مرضی؟ بھارت کے کھلاڑیوں کو اکثر “ہوم گراؤنڈ” کا فائدہ ملتا ہے، لیکن جب پال رائفل جیسے امپائرز ہر فیصلے میں ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں، تو کیا یہ کھیل کے جذبے کو مارنے کے مترادف نہیں؟
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پال رائفل دباؤ میں بہترین فیصلے کرتے ہیں۔ لیکن 2019 کے ورلڈ کپ فائنل میں ان کا وہ فیصلہ جس نے انگلینڈ کو فتح دلائی، کیا واقعی ٹیکنالوجی کی غلطی تھی یا پھر ICC کی خوشنودی کا ایک تحفہ؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی کوئی متنازعہ فیصلہ ہوتا ہے، تو پال رائفل اس کے مرکز میں ہوتے ہیں؟ کیا ICC چاہتی ہے کہ ان کے نامور امپائرز کے فیصلوں پر سوال نہ اٹھایا جائے، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں؟
یہ کہا جاتا ہے کہ پال رائفل بھارت کی پچوں اور موسم سے واقف ہیں۔ لیکن کیا واقعی IPL میں چند میچوں کی امپائرنگ کر لینے سے کوئی کسی ملک کے حالات کا ماہر بن جاتا ہے؟ ممبئی کی گرمی میں جب کسی میچ کے آخری اوورز میں امپائر کی آنکھیں تھک جاتی ہیں، تو کیا رائفل واقعی وہاں درست فیصلے کر پاتے ہیں؟ 2023 کے IPL میچ میں چیناسوامی اسٹیڈیم میں ان کا وہ فیصلہ جس میں ایک واضح کیچ کو “نوٹ آؤٹ” کہا گیا، کیا یہ واقفیت کا نتیجہ تھا یا پھر تھکاوٹ کی مار؟
ICC امپائروں کی درستگی کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، لیکن کیا واقعی یہ معیارات شفاف ہیں؟ پال رائفل جیسے امپائرز کے فیصلوں کا جائزہ لینے والے کون ہوتے ہیں؟ کیا ICC اپنے ہی بنائے ہوئے اعدادوشمار کو ہی سچ مان لیتی ہے؟ اگر رائفل واقعی اتنے ہی بہترین ہیں، تو پھر 2021 میں انگلینڈ کے خلاف بھارت کے ٹیسٹ میچ میں ان کے کیے گئے 3 غلط فیصلوں کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ کیا یہ “ایلٹ پینل” کا درجہ حاصل کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کی غلطیوں پر پردہ ڈالا جائے گا؟
ویرات کوہلی کا یہ کہنا کہ “پال رائفل پر اعتماد ہے”، درحقیقت ایک مجبوری ہے۔ کیونکہ اگر کوئی کھلاڑی امپائر کے خلاف بولے گا، تو اسے میچ فیس کی کٹوتی یا پھر میچوں سے باہر کر دیا جائے گا۔ کیا کبھی کسی بھارتی کھلاڑی نے کھل کر کہا ہے کہ رائفل کے فیصلے متنازعہ ہوتے ہیں؟ نہیں، کیونکہ ICC کی پالیسیاں انہیں خاموش رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ خاموشی کھیل کی سچائی کو دبا رہی ہے۔
آج کل کے امپائرز ٹیکنالوجی کے پیچھے چھپ کر اپنی کمزوریاں چھپاتے ہیں۔ پال رائفل بھی اسی کٹیگری میں آتے ہیں۔ ڈی آر ایس اور ہاک آئی کو ہی سہارا بنا کر وہ اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب ٹیکنالوجی خود متنازعہ ہو جائے، تو پھر کیا؟ 2023 کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل میں ہوا یہی۔ رائفل نے ٹیکنالوجی کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی غلطیوں پر پانی پھیر دیا۔ کیا یہ امپائر کی بے ضمیری نہیں؟
جب بھی پال رائفل کے فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے، تو ICC فوری طور پر ایک بیان جاری کرتی ہے کہ “ہم نے جائزہ لے لیا ہے، سب کچھ ٹھیک ہے۔” لیکن کیا کبھی ICC نے کھلاڑیوں یا کوچز کی رائے کو سنجیدگی سے لیا ہے؟ نہیں! یہ ایک طرفہ کہانی ہے جہاں ICC اپنے امپائرز کی حفاظت کے لیے ہر حد پار کر جاتی ہے۔ سوال اٹھانے والوں کو “کریک ڈاؤن” کے ذریعے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب آسٹریلیا، انگلینڈ، یا جنوبی افریقہ کے میچوں میں مقامی امپائرز کو ترجیح دی جاتی ہے، تو بھارت کے میچز میں یہ پالیسی کیوں بدل جاتی ہے؟ کیا ICC کو لگتا ہے کہ بھارتی امپائر نااہل ہیں؟ ان کے پاس نتن مینکڑ، انیل چوہدرہ، اور نٹراجن ہری ہرن جیسے تجربہ کار امپائرز موجود ہیں۔ لیکن ICC کی “وائٹ ڈومینینس” والی سوچ اب بھی زندہ ہے، جس کے تحت غیر سفید فام امپائرز کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پال رائفل کا ہر بڑے میچ میں چنا جانا کوئی اتفاق نہیں، بلکہ یہ ICC کی اس سوچ کا نتیجہ ہے جو کہتی ہے کہ “صرف ہماری مرضی چلے گی۔” یہ ایک ایسا گیم ہے جہاں امپائرز کو “ٹول” کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں کرکٹ کھیل نہیں بلکہ جذبہ ہے، وہاں غیر ملکی امپائرز کو تھوپنا درحقیقت کھیل کے ساتھ دھوکہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ICC اپنی پالیسیوں کو شفاف بنائے اور مقامی امپائرز کو موقع دے۔ ورنہ یہ شکوک اور تنقیدیں ختم ہونے والی نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں