More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

حارث رووف تنقید ختم ہو گئی تو پاکستان کرکٹ بھی ختم سمجو

حارث رووف تنقید ختم ہو گئی تو پاکستان کرکٹ بھی ختم سمجو
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے حالیہ چند ہفتے کسی کرب سے کم نہیں رہے۔ چیمپیئنز ٹرافی میں آخری پوزیشن پر رہنے کے بعد، نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز میں شرمناک کارکردگی نے قومی ٹیم اور اس کے شائقین کو ایک نئے بحران سے روشناس کرایا ہے۔ اس بحران کا مرکز صرف ٹیم کی مجموعی ناکامی نہیں، بلکہ کچھ کلیدی کھلاڑیوں کی غیر تسلی بخش پرفارمنس بھی ہے، جن میں حارث رووف کا نام سرِ فہرست ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ٹیم مسلسل ناکامیوں کا شکار ہو رہی ہو، تو کیا ہم اب بھی تنقید کو روکیں؟ کیا کھلاڑیوں، کوچز، اور سلیکٹرز کی غلطیوں پر پردہ ڈال کر ہم پاکستان کرکٹ کی بحالی کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟

چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آخری پوزیشن پر رہنے والی ٹیم نے نہ صرف میدان میں بلکہ حکمت عملی کے میدان میں بھی اپنی کمزوریاں بے نقاب کیں۔ کپتان محمد رضوان کی قیادت پر سوالات اٹھے، بلے بازوں کی غیر مستقل مزاجی عیاں ہوئی، اور باؤلرز کی صلاحیت پر بھی شکوک نے جنم لیا۔ لیکن اس سب کے باوجود، جب نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز کا آغاز ہوا، تو امید تھی کہ ٹیم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر میدان میں نئی جرات کے ساتھ اتری ہوگی۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔ پاکستانی ٹیم نے نہ صرف سیریز ہار دی، بلکہ کھیل کے ہر شعبے میں اپنی بے بسی کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر حارث رووف جیسے تجربہ کار باؤلر کی کارکردگی نے ناقدین اور شائقین کو حیرت میں ڈال دیا۔

حارث رووف، جو کبھی پاکستان کی تیز رفتار باؤلنگ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے، اس سیریز میں بالکل بے اثر نظر آئے۔ ان کی گیندیں نہ تو سپیڈ میں ماضی جیسی تھیں، نہ ہی انہوں نے یارکرز یا ویئر گیندوں کا وہ جادو دکھایا جو انہیں عالمی سطح پر نمایاں کرتا تھا۔ کئی میچوں میں ان کی اکانومی ریٹ 10 سے بھی تجاوز کر گئی، جو ایک بین الاقوامی باؤلر کے لیے شرمناک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حارث رووف کی اس ناقص کارکردگی پر تنقید کرنا غلط ہے؟ کیا ہمیں انہیں “ماضی کے احسانات” یاد دلا کر خاموش رہنا چاہیے؟ یا پھر یہ کہنا درست ہے کہ جب کھلاڑی مسلسل ناکام ہو رہے ہوں، تو انہیں ٹیم میں جگہ دینا ہی غیرمنصفانہ ہے؟

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تنقید کا مقصد کسی کو ذلیل کرنا نہیں، بلکہ غلطیوں کی نشاندہی کر کے انہیں درست کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ حارث رووف کی صورت میں، مسئلہ صرف ان کی موجودہ فارم نہیں، بلکہ ان کی فٹنس اور رویے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے ان کی کارکردگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، لیکن انہیں ٹیم میں شامل رکھنے کی پالیسی پر سلیکٹرز نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ کیا یہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے نوجوان صلاحیتوں کو نظرانداز کرنے کی علامت ہے؟ یا پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ حارث رووف جیسے کھلاڑیوں کو “قومی ہیرو” کا درجہ دے کر انہیں احتساب سے بالاتر رکھا جا رہا ہے؟

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض حارث رووف ہی نہیں، بلکہ پوری ٹیم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہی۔ بلے بازوں نے شاٹس کا انتخاب غلط کیا، فیلڈنگ میں سست روی دکھائی، اور کپتانی کے فیصلے بھی متنازع رہے۔ مثال کے طور پر، ایک میچ میں جب نیوزی لینڈ نے 200 سے زائد رنز کا ہدف دیا، تو پاکستانی ٹیم کے اوپنرز نے پہلے چھ اوورز میں محض 30 رنز بنائے، جس کے بعد مڈل آرڈر پر دباؤ بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ محمد رضوان جیسے تجربہ کار وکٹ کیپر بلے باز بھی دباؤ میں آ کر اپنی اننگز جلد ختم کر بیٹھے۔

لیکن ان سب کے باوجود، حارث رووف کی کارکردگی پر خاص توجہ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کلیدی باؤلر ہیں، جن پر ٹیم کو اننگز کے اختتامی مراحل میں وکٹیں لینے کا انحصار ہوتا ہے۔ جب ایک مین ڈیتھ باؤلر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا، تو اس کا اثر پوری ٹیم کی پرفارمنس پر پڑتا ہے۔ حارث رووف نے اس سیریز میں نہ صرف وکٹیں نہیں لیں، بلکہ رنز بھی بے تحاشا دیے۔ مثال کے طور پر، تیسرے ٹی ٹونٹی میچ میں انہوں نے 4 اوورز میں 48 رنز دے کر صرف ایک وکٹ حاصل کی، جو کسی بھی معیار پر ناقابلِ قبول ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا حارث رووف کو اس سیریز میں شامل کرنا ہی درست تھا؟ پی سی بی کے سلیکٹرز کو چاہیے تھا کہ وہ ان کی حالیہ فارم کو دیکھتے ہوئے انہیں آرام دے کر نوجوان باؤلرز کو موقع دیتے۔ مثال کے طور پر، نعمان خان یا محمد علی جیسے نوجوان تیز رفتار باؤلرز کو ٹیم میں شامل کر کے انہیں بین الاقوامی تجربہ دیا جا سکتا تھا۔ لیکن سلیکٹرز نے ماضی کی کامیابیوں کو ترجیح دی، جو کھیل کے موجودہ حالات میں ناکام ثابت ہوا۔

یہاں ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی کرکٹ میں احتساب کا نظام کتنا کمزور ہے۔ جب تک کھلاڑی “بڑے نام” ہیں، انہیں ٹیم سے باہر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ حارث رووف کی صورت میں بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے ان کی کارکردگی گراوٹ کا شکار ہے، لیکن انہیں ٹیم سے نکالنے کے بجائے مسلسل موقع دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ پاکستان کرکٹ کی ترقی کے لیے خطرناک نہیں؟ کیا ہمیں نوجوان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے تجربہ کار کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہیے، یا پھر کارکردگی کو ہی معیار بنانا چاہیے؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں دوسری ٹیموں کی مثالیں دیکھنی چاہیں۔ مثال کے طور پر، آسٹریلیا یا انگلینڈ جیسی ٹیمیں کارکردگی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اگر کوئی کھلاڑی مسلسل ناکام ہو رہا ہو، تو اسے ٹیم سے باہر کر کے نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ٹیموں میں نوجوان کھلاڑی جلد بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوا لیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ رویہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں “نام” اور “رسیلی” کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ ہم چیمپیئنز ٹرافی اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں دیکھ چکے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں تنقید کی۔ کیا ہم واقعی حارث رووف یا کسی بھی کھلاڑی کو تنقید کا نشانہ بنانے میں حق بجانب ہیں؟ جواب ہاں میں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تنقید تعمیری ہو۔ کھلاڑیوں کو گالیاں دینا یا ذاتی حملے کرنا کسی صورت درست نہیں، لیکن ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا اور انہیں بہتر کرنے کا موقع دینا ہم سب کا فرض ہے۔ حارث رووف کو بھی یہی موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی فارم بحال کریں، لیکن اس کے لیے انہیں کوچنگ اور سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی سی بی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات کر رہا ہے؟

دوسری جانب، کپتان کپتان محمد رضوان کی قیادت پر بھی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں کئی ایسے فیصلے کیے جو سمجھ سے بالاتر تھے۔ مثال کے طور پر، ایک میچ میں جب نیوزی لینڈ کے بلے باز تیزی سے اسکور کر رہے تھے، تو بابر نے حارث رووف کو دوبارہ بولنگ نہیں دی، جبکہ وہ پہلے ہی مہنگے ہو چکے تھے۔ ایسے فیصلے ٹیم کو مزید دباؤ میں ڈالتے ہیں۔ کیا کپتان محمد رضوان کو کوچنگ سپورٹ کی ضرورت ہے؟ یا پھر انہیں قیادت کی ذمہ داری سے ہٹا کر صرف بلے باز کے طور پر کھیلنا چاہیے؟

ان سوالات کے جوابات پی سی بی کو تلاش کرنے ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے، بورڈ کی جانب سے اب تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے کے بجائے، پرانے چہروں کو ہی بار بار آزمایا جا رہا ہے۔ کیا یہ پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لیے خطرناک نہیں؟

آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی کرکٹ کو نہ صرف کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تنقید کی ضرورت ہے، بلکہ انتظامیہ کے فیصلوں پر بھی سوال اٹھانے چاہیں۔ جب تک ہم غلطیوں کو تسلیم نہیں کریں گے، تب تک انہیں درست کرنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتے۔ حارث رووف کی کارکردگی پر تنقید کرنا کوئی جرم نہیں، بلکہ یہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے ایک ضروری قدم ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہماری ٹیم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے گی اور ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترے گی۔

پاکستانی کرکٹ کے شائقین کا جذبہ بے مثال ہے، لیکن جب ٹیم مسلسل ناکامیوں کا شکار ہو، تو ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ حارث رووف جیسے کھلاڑیوں پر تنقید کرنا ہمارا حق ہے، لیکن اس تنقید کا مقصد انہیں نیچا دکھانا نہیں، بلکہ انہیں بہتر بنانا ہونا چاہیے۔ پی سی بی کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں کوچنگ اور سپورٹ فراہم کرے۔ ساتھ ہی، نوجوان صلاحیتوں کو موقع دینے کی پالیسی اپنائی جائے، تاکہ پاکستان کرکٹ دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکے۔ یاد رکھیں، تنقید اور احتساب ہی کسی بھی کھیل کو زندہ رکھتے ہیں — خاموشی صرف زوال کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں