More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

پاکستان کرکٹ: یہ مستقبل کی نوجوان ٹیم کب مکمل ہوگی ؟

پاکستان کرکٹ: یہ مستقبل کی نوجوان ٹیم کب مکمل ہوگی ؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستان کرکٹ ہمیشہ سے ہی ایک جذباتی موضوع رہا ہے، جس پر شائقین کرکٹ اپنی ہر جیت اور ہار کے ساتھ خوشی اور غم کی شدت کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر ایک سوال جو ہر شکست کے بعد شدت سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہماری ٹیم محض نوجوان کھلاڑیوں کے سہارے بڑی ٹیموں کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ کیا ہر بار جیت کی امید نئے کھلاڑیوں پر لگا کر ہی رکھی جانی چاہیے، یا پھر ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہے جو ٹیم کو تسلسل کے ساتھ کامیابیوں کی راہ پر گامزن کرے؟

پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ہم نے کئی ایسے لمحات دیکھے ہیں جہاں ناتجربہ کار ٹیموں کو مضبوط حریفوں کے سامنے بے بس پایا گیا۔ ہمارے پاس ہمیشہ باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں رہی، مگر کیا یہ کھلاڑی ایک پروفیشنل اور مضبوط کرکٹنگ نظام کے بغیر دنیا کی بہترین ٹیموں کے خلاف کامیابی حاصل کرسکتے ہیں؟ ہر بار یہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کب تک اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے نئے کھلاڑیوں کے انتخاب کو واحد حل سمجھے گا؟

مسئلہ صرف کھلاڑیوں کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے۔ ایک مضبوط نظام وہی ہوتا ہے جہاں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے عالمی معیار کی سہولیات میسر ہوں، جہاں کھلاڑی محض اپنے انفرادی ٹیلنٹ کے بجائے ایک اجتماعی منصوبہ بندی کے تحت تیار کیے جائیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ پاکستان ٹیم ایک سیریز میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اگلی سیریز میں وہی ٹیم مکمل طور پر ناکام ہوجاتی ہے۔ اس عدم تسلسل کی بنیادی وجہ ٹیم کا غیر مستحکم کرکٹ ڈھانچہ ہے۔

ہماری ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی بہت سی خامیاں ہیں جو قومی ٹیم کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ڈومیسٹک سطح پر وہ معیار نظر نہیں آتا جو آسٹریلیا، انگلینڈ، یا بھارت میں موجود ہے۔ ان ممالک میں کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کے دوران ہی اتنے پختہ ہوجاتے ہیں کہ جب وہ بین الاقوامی سطح پر کھیلنے آتے ہیں تو وہ پہلے ہی ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ مگر پاکستان میں اکثر کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر آکر ہی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ٹیم ایک مستقل مزاجی کے ساتھ پرفارم نہیں کر پاتی۔

مزید برآں، کرکٹ بورڈ کی پالیسیوں میں بار بار کی تبدیلیاں، سلیکشن کمیٹی کی ناقص حکمت عملی، اور کوچنگ سسٹم میں عدم تسلسل بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک مضبوط کرکٹ نظام کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کو سلیکشن کے وقت مکمل تیاری دی جائے اور ان پر سرمایہ کاری کی جائے۔ اگر ہم نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے کے ساتھ ساتھ ایک مربوط اور مستقل کرکٹ سسٹم بنا لیں تو نہ صرف ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل آئے گا بلکہ جیت کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔

اس کے برعکس، ہم ہر بار نئے کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتے ہیں مگر انہیں مکمل تربیت فراہم نہیں کرتے۔ نتیجتاً جب وہ عالمی معیار کی ٹیموں کے خلاف میدان میں اترتے ہیں تو ان کا تجربہ کمزور ثابت ہوتا ہے اور ٹیم شکست سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کو سمجھیں کہ کرکٹ محض ٹیلنٹ کا کھیل نہیں، بلکہ اس میں سسٹم اور حکمت عملی کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔

دنیا کی بہترین ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اپنی جیت کے لیے صرف کھلاڑیوں پر انحصار نہیں کیا بلکہ ایک ایسا نظام بنایا جو تسلسل کے ساتھ مضبوط کھلاڑی پیدا کرتا ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، اور بھارت میں جونیئر سطح سے ہی کھلاڑیوں کو بہترین کوچنگ، ذہنی مضبوطی، اور جدید کرکٹ کی تربیت دی جاتی ہے، جس کا اثر ان کی قومی ٹیموں کی کارکردگی پر واضح نظر آتا ہے۔

پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ کرکٹ کی ترقی کے لیے ایک مضبوط سسٹم تشکیل دے جو نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت، ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار میں بہتری، اور کوچنگ کے جدید طریقوں کو اپنانے پر مشتمل ہو۔ اگر ہم صرف نئے کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتے رہیں گے اور سسٹم میں بہتری نہیں لائیں گے تو ہماری ٹیم کا حال ہمیشہ غیر یقینی اور ناقابلِ اعتماد رہے گا۔

پاکستان کرکٹ کو ترقی دینے کے لیے ہمیں اپنے ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنا ہوگا، کوچنگ کے جدید اصول اپنانے ہوں گے، اور ایک ایسا سلیکشن پروسیس بنانا ہوگا جو کھلاڑیوں کو کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کرے، نہ کہ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر۔ اگر ہم یہ تمام اقدامات اٹھائیں گے تو نہ صرف پاکستان کرکٹ میں تسلسل آئے گا بلکہ ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے کے قابل بھی بنے گی۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں