More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

دلبراداشتہ عمر اکمل اپنے بیٹے کو پاکستان کے لیے کھیلانے کو تیار نہیں

دلبراداشتہ عمر اکمل اپنے بیٹے کو پاکستان کے لیے کھیلانے کو تیار نہیں
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں عمر اکمل کا نام ایک ایسے کھلاڑی کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے اپنے بے پناہ ٹیلنٹ کے باوجود اپنے کیریئر کو تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ وہ نوجوانی ہی سے میدان میں اترا، شاندار پرفارمنس دی، مگر پھر اچانک وہی عمر اکمل جو کبھی پاکستان کی مڈل آرڈر کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا، تنقیدوں، پابندیوں، اور قانونی چارہ جوئیوں کے دلدل میں پھنس گیا۔ اب جبکہ وہ بین الاقوامی کرکٹ سے کوسوں دور ہے، اس نے ایک اور متنازع بیان دے کر سب کو چونکا دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ “فکسنگ کرنے والے کھلاڑی ٹیم میں شامل ہیں، لیکن مجھے کیس جیتنے کے باوجود کرکٹ سے دور کر دیا گیا۔” یہ بیانات نہ صرف اس کے اپنے کیریئر پر سوالیہ نشان ہیں، بلکہ پاکستانی کرکٹ کے نظام کی اخلاقیات اور شفافیت کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔

عمر اکمل کا کرکٹی سفر: شروعات سے زوال تک
عمر اکمل نے 2009 میں پاکستان کی طرف سے اپنا پہلا بین الاقوامی میچ کھیلا۔ وہ ایک نوجوان، پرجوش، اور جارحانہ بلے باز تھا جس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر سب کو یقین تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہے۔ اس نے اپنے ابتدائی دور میں ہی جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، اور انگلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف شاندار اننگز کھیل کر اپنا لوہا منوایا۔ 2010 کی دہائی میں جب پاکستان کرکٹ سکینڈلز اور پابندیوں کے بعد بحران کا شکار تھی، عمر اکمل کو ٹیم کا اہم ستون سمجھا جاتا تھا۔ مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ اس کا ستارہ ماند پڑنے لگا۔

تنازعات کا آغاز: ڈسپلن کی خلاف ورزیاں
عمر اکمل کو ڈسپلن کے مسائل کی وجہ سے کئی بار ٹیم سے باہر کیا گیا۔ کوچ اور کپتانوں کے ساتھ جھگڑے، میچوں میں غیر پیشہ ورانہ رویہ، اور ٹیم مینجمنٹ کے احکامات کو نظرانداز کرنا اس کی عادت بن گئے۔ 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے دوران اسے ٹیم سے نکال دیا گیا کیونکہ اس نے فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد بھی خود کو ٹیم کا حصہ سمجھا۔ یہ واقعہ اس کی بدتمیزی اور ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کی ایک لمبی سیریز کا حصہ تھا۔

سب سے بڑا دھچکا: سپاٹ فکسنگ کا الزام
2018 میں عمر اکمل پر پاکستان سپر لیگ (PSL) کے دوران سپاٹ فکسنگ کرنے کا الزام لگا۔ پی سی بی نے اس پر 3 سال کی پابندی عائد کر دی، جو بعد میں گھٹا کر 18 ماہ کر دی گئی۔ عمر اکمل نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا، اور 2021 میں اسے کچھ رعایت مل گئی۔ مگر اس کے بعد بھی اسے کبھی ٹیم میں واپسی نہیں ملی۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر عمر اکمل اپنے حالیہ بیانات میں زور دے رہا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ وہ کیس جیت چکا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے ٹیم سے باہر رکھا گیا ہے۔

“میرا بیٹا پاکستان کے لیے نہیں کھیلے گا”
حالیہ انٹرویوز میں عمر اکمل نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام میں کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، اور جو لوگ فکسنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہیں، وہ ٹیم میں جگہ پا لیتے ہیں۔ اس نے سوال اٹھایا کہ “اگر میں نے فکسنگ نہیں کی تھی، اور عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا، تو پھر مجھے کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟” عمر اکمل کے مطابق، اس کی ذات اور اس کے خاندان کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔

کیا عمر اکمل کا دعویٰ درست ہے؟
عمر اکمل کے بیانات کو سمجھنے کے لیے پاکستانی کرکٹ کے اندرونی معاملات کو دیکھنا ضروری ہے۔ پی سی بی کی تاریخ میں کئی بار کھلاڑیوں پر فکسنگ کے الزامات لگے ہیں۔ کچھ معاملات میں ثبوت ملنے پر سخت سزائیں دی گئیں، جیسے سلمان بٹ، محمد عامر، اور محمد آصف۔ لیکن کئی کیسز میں الزامات کو ثابت نہ ہونے پر کھلاڑیوں کو واپس بھی لیا گیا۔ عمر اکمل کا معاملہ منفرد ہے کیونکہ اس پر الزام لگا، اسے جزوی سزا ملی، اور پھر عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ واپس لے لیا۔ مگر پی سی بی نے اسے دوبارہ موقع دینے سے انکار کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عمر اکمل کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے؟ یا پھر اس کے ماضی کے ڈسپلن کے مسائل اور رویے نے اس کی واپسی کے راستے روک دیے ہیں؟ پی سی بی کے سابق اہلکاروں کا کہنا ہے کہ عمر اکمل کو صرف فکسنگ کیس کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے بھی نظرانداز کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیم میں شامل ہونے کے لیے صرف ٹیلنٹ ہی کافی نہیں، بلکہ ذمہ داری اور پیشہ ورانہ اخلاقیات بھی ضروری ہیں۔

فکسنگ الزامات: پاکستان کرکٹ کا کرب
پاکستان کرکٹ فکسنگ کے عفریت سے کبھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکی۔ 1990 کی دہائی میں سلمان بٹ، محمد آصف، اور محمد عامر جیسے کھلاڑیوں کے کیسز نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان واقعات کے بعد پی سی بی نے اینٹی کرپشن یونٹ قائم کیا، لیکن اب بھی کھلاڑیوں پر شکوک و شبہات کا سلسلہ جاری ہے۔ عمر اکمل کا یہ کہنا کہ “فکسنگ کرنے والے کھلاڑی ٹیم میں شامل ہیں” ایک سنگین الزام ہے۔ اگر یہ سچ ہے، تو یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ مگر کیا عمر اکمل کے پاس اس دعوے کے کوئی ثبوت ہیں؟ یا یہ محض ایک مایوس کھلاڑی کی تلخیاں ہیں؟

عمر اکمل کا مستقبل: کیا واپسی ممکن ہے؟
عمر اکمل کی عمر اب 34 سال ہے۔ ٹی20 کرکٹ میں اب بھی کچھ کھلاڑیوں کو موقع ملتا ہے، لیکن پی سی بی کی جانب سے اسے نظرانداز کرنے کی پالیسی واضح ہے۔ اس کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اپنی کرکٹ کو خیرباد کہہ چکا ہے، اور اب وہ اپنے تجربات کو دوسروں کے لیے سبق کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ مگر کیا واقعی پاکستان کرکٹ نے عمر اکمل جیسے ٹیلنٹ کو ضائع کر دیا؟ یا پھر اس کی اپنی غلطیاں اس کے زوال کی وجہ بنیں؟

نجی زندگی اور خاندان پر اثرات
عمر اکمل کے بیان میں سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ ایک باپ کا اپنے خوابوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھنے کا اظہار ہے۔ شاید وہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا ان مشکلات سے بچے جو اس نے خود جھیلیں۔ مگر یہ بیان پاکستان کرکٹ کے نظام پر ایک کاری ضرب بھی ہے۔ اگر ایک سابق کھلاڑی اپنے ہی ملک کے نظام پر اعتماد کھو چکا ہے، تو یہ پوری کرکٹ کمیونٹی کے لیے فکر کی بات ہے۔

نتیجہ: کیا پاکستان کرکٹ کو اصلاح کی ضرورت ہے؟
عمر اکمل کے بیانات چاہے جتنے بھی متنازع ہوں، وہ پاکستان کرکٹ کے اندر گہرے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی تربیت، ڈسپلن کے معیارات، اینٹی کرپشن پالیسیاں، اور میرٹ پر سلیکشن — یہ سب وہ شعبے ہیں جہاں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کرکٹ کو عالمی سطح پر اپنا وقار بحال کرنا ہے، تو اسے عمر اکمل جیسے کیسز کو نظرانداز کرنے کے بجائے، ان سے سبق سیکھنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کو یقین دلانا ہوگا کہ انصاف کا نظام شفاف ہے، اور صلاحیت کو ہی سب کچھ سمجھا جائے گا۔ ورنہ، عمر اکمل کا یہ جملہ — “میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلے” — محض ایک اور تلخ حقیقت بن کر رہ جائے گا۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں