کھیل وہی ہے جو عوام کے دل میں اتر جائے، کرکٹ دل سے نہ اتر جائے
کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لیے جذبہ، جشن، اور زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جو گلی محلوں سے لے کر بین الاقوامی اسٹیڈیمز تک ہر دل میں اُتر جاتا ہے۔ پاکستان میں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کرکٹ نے مذہب، سیاست، اور معاشرتی تقسیم سے بالاتر ہو کر عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ہے۔ لیکن آج جب ہم کرکٹ کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک المیہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ کرکٹ، جو کبھی عوامی جذبات کی عکاسی تھی، اب خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے؟ کیا انتظامیہ کی نااہلی، کھلاڑیوں کی بے حسی، اور تجارتی مفادات کے طوفان نے اس کھیل کی روح کو نگل لیا ہے؟ یہ سوال محض کھیل تک محدود نہیں، بلکہ عوامی ثقافت اور تفریح کے بحران کی علامت ہے۔
کرکٹ کی تاریخ پاکستان میں جذبوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم نے نہ صرف ٹرافی اٹھائی، بلکہ قوم کو ایک نئی امید دی۔ عمران خان، وسیم اکرم، اور انور کبیر جیسے کھلاڑی گلی گلی کے ہیرو بن گئے۔ یہ وہ دور تھا جب کھلاڑی عوامی تھے، ان کی کامیابیوں پر پورا ملک ناز کرتا تھا، اور ناکامی پر آنسو بہاتا تھا۔ اسٹیڈیمز میں ٹکٹ کی قیمتیں اتنی کم تھیں کہ مزدور، طالب علم، اور عام آدمی بھی میچ دیکھ سکتا تھا۔ ٹیلی ویژن پر میچ کے دوران گھروں میں خاموشی چھا جاتی تھی، اور ہر چھکے پر گلیاں گونج اٹھتی تھیں۔ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ کرکٹ اب “عوامی تفریح” نہیں رہی، بلکہ ایک “کاروباری صنعت” بن چکی ہے۔ اس کی وجوہات میں سب سے بڑا عنصر انتظامیہ کی نااہلی ہے۔ پی سی بی میں ہونے والی مسلسل تبدیلیاں، مالی اسکینڈلز، اور کھلاڑیوں کی سلیکشن میں اقربا پروری نے ٹیم کو کمزور کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر، 2020 میں ہونے والا پی سی بی کا رسیدوں کا اسکینڈل، جس میں لاکھوں روپے کے غیر قانونی معاملات سامنے آئے، نے عوام کا اعتماد مکمل طور پر توڑ دیا۔
دوسرا بڑا مسئلہ کھلاڑیوں کی بے حسی ہے۔ آج کے کھلاڑی سوشل میڈیا اسٹارز ہیں، جن کی ترجیح میں کھیل سے زیادہ برانڈز اور دولت شامل ہو چکی ہے۔ شاہین آفریدی جیسے کھلاڑی اکثر زخمی رہتے ہیں، جبکہ نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی میچوں میں موقع دینے کے بجائے غیر معیاری لیگز پر توجہ دی جاتی ہے۔ تیسرا عنصر کرکٹ کا تجارتی ہو جانا ہے۔ پی ایس ایل جیسے لیگز نے اگرچہ کھیل کو مقبول بنایا، لیکن اس کی روشنی میں عام پرستاروں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ٹکٹ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور میچز کی براڈکاسٹنگ حقوق مہنگے چینلز کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ غریب آدمی کے لیے اسٹیڈیم میں میچ دیکھنا خواب بن کر رہ گیا ہے۔
کرکٹ کے زوال نے عوامی تفریح کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پہلے لوگ میچ کے لیے جمع ہوتے تھے، اب وہی لوگ کرکٹ پر تنقید کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، کھلاڑیوں کی ذاتی زندگی پر تبصرے، اور ہار کی صورت میں انہیں گالیاں دینا معمول بن چکا ہے۔ یہ رویہ صرف کھلاڑیوں کو نہیں، بلکہ کھیل کے تقدس کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، دیگر تفریحی ذرائع نے بھی کرکٹ کی جگہ لے لی ہے۔ یوٹیوب، ٹک ٹاک، اور ویڈیو گیمز نوجوان نسل کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ غریب طبقے کے لیے کرکٹ کھیلنا بھی مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ شہروں میں کھیل کے میدان مہنگے ہاؤسنگ سکیمز کی نذر ہو چکے ہیں۔
کرکٹ کے زوال کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے: انتظامیہ کی اصلاحات، عوامی رابطہ، کھلاڑیوں کی تربیت، اور کمرشل ازم پر لگام۔ پی سی بی کو پیشہ ورانہ انتظامیہ کے حوالے کیا جائے، جس میں کرپشن کے خلاف سخت قوانین ہوں۔ ٹکٹ کی قیمتیں کم کر کے عام آدمی کو اسٹیڈیم تک واپس لایا جائے۔ دیہی علاقوں میں کرکٹ اکیڈمیاں قائم کی جائیں۔ نوجوان کھلاڑیوں کو ذہنی دباؤ اور فٹنس کے لیے جدید سہولیات دی جائیں۔ لیگز کو ضرور فروغ دیا جائے، لیکن کھیل کی روح کو تجارت پر قربان نہ کیا جائے۔
کرکٹ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کھیل مشکلات سے نبردآزما ہو کر ہی عروج پر پہنچا ہے۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے لے کر 2009 کی T20 چیمپیئن شپ تک، ہم نے ناممکن کو ممکن بنایا ہے۔ آج بھی اگر انتظامیہ، کھلاڑی، اور عوام مل کر کوشش کریں، تو کرکٹ اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس پا سکتی ہے۔ یاد رکھیں، کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی شناخت کا حصہ ہے۔ اسے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں