کرکٹ کرپشن، تنقید صرف 90 کی دہائی اور بعد کے کھلاڑیوں پر ہی کیوں ؟
پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سب سے دلچسپ، المناک، اور تنازعات سے بھرا دور شاید نوے کی دہائی ہی رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان ٹیم دنیا کی سب سے خطرناک ٹیم سمجھی جاتی تھی۔ وسیم اکرم کی سوئنگ، وقار یونس کی یارکرز، سعید انور کی شاندار بیٹنگ، اور انضمام الحق کی لیڈرشپ۔ یہ سب نام آج بھی کرکٹ کے پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ لیکن اسی دور کو “کرپشن کا سنہری دور” بھی کہا جاتا ہے۔ میچ فکسنگ کے اسکینڈلز، کھلاڑیوں کے بیانات، اور عدالتوں تک پہنچنے والے مقدمات۔ پھر سوال یہ ہے کہ آج جب ہم نوے کی دہائی کے کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو کیا یہ تنقید صرف انہی تک محدود کیوں ہے؟ کیا اس کے بعد پاکستان کرکٹ میں کرپشن کے بادشاہ پیدا نہیں ہوئے؟ کیا 2000ء کی دہائی یا موجودہ دور کے کھلاڑی مقدس گائے بن چکے ہیں؟
نوے کی دہائی: شہرت اور بدنامی کا امتزاج
نوے کی دہائی میں پاکستان کرکٹ نے جہاں کھیل کے میدان میں شاندار کامیابیاں سمیٹیں، وہیں یہ دور کرپشن، لابی بازی، اور اندرونی کشمکش کی وجہ سے بھی بدنام ہوا۔ 1994ء میں سلیکٹرز اور کھلاڑیوں کے درمیان تنازعات، 1999ء کے ورلڈ کپ میں شکست کے بعد ٹیم کی بے ضابطگیوں پر بحث، اور پھر 2000ء میں قاضی محمد جاوید کی انکوائری رپورٹ جس میں کئی کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جنہوں نے نوے کی دہائی کے کھلاڑیوں کو تاریخ کے سیاہ باب میں شامل کر دیا۔ لیکن کیا یہ الزامات صرف اسی دور تک محدود تھے؟ کیا ان کے بعد آنے والے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاک ہیں؟
2000ء کی دہائی: کرپشن کا نیا چہرہ
نوے کی دہائی کے اختتام پر جب کرپشن کے اسکینڈلز عیاں ہوئے، تو پی سی بی نے کچھ کھلاڑیوں پر پابندیاں لگا دیں۔ لیکن کیا یہ پابندیاں صرف “چند بکریوں” کو بھینٹ چڑھانے کا طریقہ کار تھیں؟ 2000ء کی دہائی میں پاکستان کرکٹ میں نئے نام سامنے آئے، لیکن کرپشن کا سلسلہ بند نہ ہو سکا۔ 2010ء کا وہ بدنام زمانہ اسکینڈل یاد کیجیے جب انگلینڈ کے دورے پر پاکستان کے تین کھلاڑیوں—محمد عامر، محمد آصف، اور سلمان بٹ—پر میچ فکسنگ کے الزامات لگے۔ یہ اسکینڈل نوے کی دہائی کے اسکینڈلز سے کسی طور کم نہیں تھا۔ بلکہ اس میں تو کھلاڑیوں نے نہ صرف میچ کے نتائج بلکہ اسپاٹ فکسنگ (مثلاً نو بالوں کی تعداد) تک کو بیچ ڈالا۔ عامر جیسے نوجوان ٹیلنٹ کو جیل ہوئی، اور سلمان بٹ کی کپتانی خاک میں مل گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان واقعات کو نوے کی دہائی کے اسکینڈلز جتنی تنقید کا سامنا ہوا؟ نہیں۔ کیوں؟
پی ایس ایل کا دور: کرپشن کا “جدید” روپ
اگر آپ کو لگتا ہے کہ 2010ء کا اسکینڈل آخری تھا، تو آپ غلط ہیں۔ 2017ء میں پاکستان سپر لیگ (PSL) کے دوسرے ایڈیشن کے دوران ایک بار پھر میچ فکسنگ کے اسکینڈلز سامنے آئے۔ شریف الرحمٰن جیسے کھلاڑی کو نشے کی حالت میں میچ سے پہلے ہی گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں، خرم منظور اور محمد نواز جیسے ناموں پر بھی مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات لگے۔ یہ وہ دور تھا جب کرکٹ میں کرپشن نے اپنا روپ بدل لیا تھا۔ اب صرف ٹیسٹ میچز یا ون ڈے نہیں، بلکہ ٹی20 لیگز جیسے شارٹ فارمیٹس بھی کرپشن کی زد میں تھے۔ لیکن کیا ان کھلاڑیوں کو نوے کی دہائی کے کھلاڑیوں جیسی تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟ کیا ان کے کیرئیر کو اسی طرح خاک میں ملا دیا گیا؟ نہیں۔ خرم منظور آج بھی کمنٹری باکس میں بیٹھ کر کھیل پر تبصرہ کرتا ہے، اور محمد نواز نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا کہ “میں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔”
نوے کی دہائی کے کھلاڑی: آسان ہدف کیوں؟
اب سوال یہ ہے کہ آخر نوے کی دہائی کے کھلاڑی ہی تنقید کا نشانہ کیوں بنتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ نوے کی دہائی میں کرپشن کا پہلی بار اتنا بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس سے پہلے کرکٹ کو “مقدس کھیل” سمجھا جاتا تھا، اور کھلاڑیوں کو ہیرو کی طرح پوجا جاتا تھا۔ لیکن جب یہ اسکینڈلز سامنے آئے، تو عوام کا غصہ بھی اتنا ہی شدید تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ نوے کی دہائی کے کھلاڑی اب ریٹائرڈ ہیں۔ ان کی کوئی “موجودہ قدر” نہیں، اس لیے ان پر تنقید کرنا محفوظ ہے۔ جبکہ موجودہ دور کے کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہیں، اور ان پر تنقید کرنے کا مطلب ٹیم کی کارکردگی پر سوال اٹھانا ہے۔ تیسری وجہ میڈیا کا رول ہے۔ نوے کی دہائی کے اسکینڈلز کو میڈیا نے جس طرح کور کیا، وہ آج کے اسکینڈلز کو نہیں ملتا۔ آج کل کے میڈیا میں “ٹرینڈز” اور “کلکس” کی دوڑ ہے، اس لیے گہرائی میں جا کر معاملات کو اٹھانا کم ہو گیا ہے۔
کرپشن کنگز: پرانے ہوں یا نئے، سب ایک جیسے!
حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کا کوئی دور نہیں ہوتا۔ یہ ہر زمانے میں موجود رہتی ہے، بس اس کے انداز بدلتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں کھلاڑیوں نے میچوں کے نتائج بیچے، تو آج کے دور میں “اسپاٹ فکسنگ” ہوتی ہے۔ پرانے دور میں کرپشن کا تعلق سلیکشن اور ٹیم مینجمنٹ سے تھا، تو آج کل یہ ٹی20 لیگز کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نوے کی دہائی کے کھلاڑیوں کو “گناہ گار” ٹھہرایا گیا، جبکہ موجودہ دور کے کھلاڑیوں کو “موقع دیا جاتا ہے۔” مثال کے طور پر، محمد عامر کو جیل ہوئی، لیکن آج وہ دوبارہ ٹیم کا حصہ بنا۔ اسی طرح شریف الرحمٰن پر پابندی لگی، لیکن کئی دیگر کھلاڑیوں کو معاف کر دیا گیا۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟
پی سی بی: اصل مجرم کون؟
تنقید اگر صرف کھلاڑیوں تک محدود رہے، تو یہ ناانصافی ہے۔ حقیقی مسئلہ تو پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کے اندر موجود کرپشن اور نااہلی ہے۔ نوے کی دہائی سے لے کر آج تک، پی سی بی کے افسران، سلیکٹرز، اور انتظامیہ پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ کھلاڑیوں کی سلیکشن میں لابی بازی، ٹورنمنٹس کے بجٹ میں گڑبڑ، اور کوچز کی تقرریوں میں سفارشات۔ یہ سب وہ مسائل ہیں جو کھلاڑیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ لیکن ان پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ مثال کے طور پر، 2003ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی ناکامی کے بعد ٹیم کے کپتان وقار یونس کو برطرف کر دیا گیا، لیکن پی سی بی کے افسران اپنی کرسیوں پر براجمان رہے۔ اسی طرح 2021ء میں پاکستان کی نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز سے دستبرداری کے فیصلے پر بھی پی سی بی کی پالیسیوں پر سوال اٹھے، لیکن کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔
آخری بات: کھلاڑیوں کو کیوں جھونکا جاتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ کھلاڑی آسان ہدف ہیں۔ انہیں عوامی نظروں کے سامنے رہنا پڑتا ہے۔ جب کوئی اسکینڈل ہوتا ہے، تو میڈیا اور عوام کا غصہ سب سے پہلے انہی پر نکلتا ہے۔ لیکن پی سی بی کے افسران، جو کروڑوں روپے کے بجٹ کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کا اصل بیج بورڈ کے اندر موجود ہے، لیکن اسے کھلاڑیوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔
نتیجہ: سب کو یکساں تنقید کا نشانہ بنایا جائے
اگر ہم واقعی پاکستان کرکٹ کو بچانا چاہتے ہیں، تو تنقید صرف نوے کی دہائی کے کھلاڑیوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ موجودہ دور کے کھلاڑیوں، کوچز، سلیکٹرز، اور پی سی بی کے افسران سب کو یکساں طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ کرپشن کوئی ایک دور کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک سسٹمک بیماری ہے جو پاکستان کرکٹ کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ جب تک اس نظام کو نہیں بدلا جاتا، تب تک چاہے آپ نوے کی دہائی کے کھلاڑیوں کو سرعام کوڑے مارتے رہیں یا موجودہ ٹیم کو لعن طعن کرتے رہیں، کچھ نہیں بدلے گا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں