لاہور نہیں جاؤں گی
کرکٹ کے بے قاعدہ چکروں والے اس کھیل میں جہاں کامیابی اور ناکامی کا فرق اکثر ایک ہی گیند پر منحصر ہوتا ہے، وہیں میزبانی کا حق بھی کبھی کبھار ایک ہی فیصلے سے چھن جاتا ہے۔ پاکستان، جو کبھی کرکٹ کی دنیا کا ایک مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا، آج ایک بار پھر اُس المیے کا سامنا کر رہا ہے جس نے اسے گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک بین الاقوامی کرکٹ کے نقشے سے تقریباً غائب کر دیا تھا۔ چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے لیے پاکستان کو میزبانی کا اعزاز تو ملا، مگر اچانک یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ “ٹرافی لاہور نہیں جائے گی۔” یہ اعلان نہ صرف پاکستانی کرکٹ پرستاروں کے لیے ایک صدمہ ہے، بلکہ یہ سوال بھی پیدا کرتا ہے کہ کیا واقعی پاکستان بین الاقوامی کرکٹ کو واپس لانے کے لیے تیار ہے؟ یا پھر ہم ایک بار پھر اُسی اندھیرے میں جا رہے ہیں جہاں سے نکلنے میں ہمیں برسوں لگ گئے تھے۔
پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ کبھی جذبوں، جوش اور جیت کے قصوں سے بھری پڑی تھی۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم، کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم، اور راولپنڈی کی پچیں عالمی کرکٹ کے لیے اہمیت رکھتی تھیں۔ مگر 2009 کا وہ سیاہ دن، جب لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردانہ حملہ ہوا، نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے کے بعد سے پاکستان بین الاقوامی کرکٹ کے لیے ایک “نو گو زون” بن گیا۔ کوئی بھی بیرونی ٹیم یہاں کھیلنے کو تیار نہیں تھی، اور پاکستان کو اپنے گھریلو میچز متحدہ عرب امارات یا دیگر ممالک میں کھیلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی انتظامیہ نے اپنی سیکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ 2015 میں زمبابوے کی ٹیم کا دورہ، 2017 میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں منعقد ہونا، اور پھر 2020 میں سری لنکن ٹیم کی واپسی جیسے واقعات نے امید کی ایک کرن دکھائی۔ مگر اب چیمپیئنز ٹرافی کے حوالے سے لاہور کے لیے “ٹرافی کے انکار” نے ایک بار پھر ان خدشات کو جنم دے دیا ہے جو پاکستان کے کرکٹی مستقبل کو دھندلا کر رہے ہیں۔
چیمپیئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کا اعلان ہوا تو پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ پاکستان کے لیے نہ صرف ایک اعزاز تھا، بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کو مکمل طور پر واپس لانے کا ایک سنہری موقع بھی۔ پی سی بی نے لاہور، کراچی اور راولپنڈی کو میچز کی میزبانی کے لیے منتخب کیا، جبکہ فائنل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے کا اعلان کیا گیا۔ مگر حال ہی میں ایک غیر متوقع موڑ نے سب کو حیران کر دیا۔ چیمپیئنز ٹرافی کے منتظمین نے اچانک کہا کہ “ٹرافی کا فائنل لاہور میں نہیں ہوگا۔” اس فیصلے کی کوئی واضح وجہ تو نہیں بتائی گئی، لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ بعض ٹیموں کی طرف سے لاہور میں کھیلنے کے حوالے سے تحفظات کی وجہ سے لیا گیا ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی ٹیم نے لاہور میں کھیلنے سے انکار کر دیا ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ آئی سی سی کو لاہور کی سیکیورٹی یا انفراسٹرکچر کے حوالے سے تشویش ہے۔
لاہور، جو پاکستان کرکٹ کا دِل سمجھا جاتا ہے، اس فیصلے سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قذافی اسٹیڈیم میں گزشتہ کئی سالوں سے بین الاقوامی میچز منعقد ہو رہے ہیں، اور یہاں کی پچ اور سہولیات کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ پی سی بی کے ترجمان نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ لاہور کی سیکیورٹی، ٹریفک اور رہائش کے انتظامات دنیا کے کسی بھی معیار کے مطابق ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان بلکہ کرکٹ کے پرستاروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔” مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ فیصلہ صرف سیکیورٹی کی وجہ سے لیا گیا ہے؟ یا پھر اس کے پیچھے کوئی سیاسی یا انتظامی وجوہات کارفرما ہیں؟
پاکستان کی وزیر اعظم نے، جو پی سی بی کی سرپرست بھی ہیں، اس معاملے پر فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے آئی سی سی سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “پاکستان نے گزشتہ چند سالوں میں بین الاقوامی کرکٹ کو واپس لانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ ہم کسی بھی قسم کے تعصب کے بغیر فیصلے کا مطالبہ کرتے ہیں۔” دوسری طرف، پاکستانی کرکٹ پرستاروں کا غم و غصہ سوشل میڈیا پر واضح نظر آ رہا ہے۔ #PakistanDeservesBetter اور #LahoreIsReady جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ کئی سابق کھلاڑیوں، جن میں شاہد آفریدی اور وسیم اکرم شامل ہیں، نے بھی اس فیصلے کو پاکستان کرکٹ کے لیے ایک دھچکہ قرار دیا ہے۔
لاہور کے بجائے اگر فائنل کراچی یا راولپنڈی میں منتقل کیا جاتا ہے، تو کیا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ محض ایک شہر کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی بین الاقوامی سطح پر قبولیت کا ہے۔ پاکستان کو 2009 کے بعد سے اب تک صرف چند محدود دوروں ہی کی میزبانی کا موقع ملا ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، اور بھارت جیسی بڑی ٹیمیں اب بھی پاکستان آنے سے گریزاں ہیں۔ حالانکہ پی سی بی نے گزشتہ سالوں میں سیکیورٹی کے حوالے سے غیر ملکی ٹیموں کو یقین دہانی کرائی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ چند میچز کی کامیاب میزبانی کے باوجود بیرونی دنیا کا اعتماد بحال ہونے میں وقت لگے گا۔
اس صورتحال میں پاکستان کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ سب سے پہلے تو پی سی بی کو چاہیے کہ وہ آئی سی سی اور دیگر ممالک کی کرکٹ بورڈز کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو تیز کریں۔ دوسرا، لاہور کی سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ثابت کرنے کے لیے ویڈیو ثبوت، آزاد آڈٹ رپورٹس، اور غیر ملکی میڈیا کو دعوت دی جائے۔ تیسرا، عوامی سطح پر ایک مہم چلائی جائے جس میں پاکستان کے پرامن اور کرکٹ دوست امیج کو اجاگر کیا جائے۔
لاہور کے حوالے سے یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری کرکٹ دنیا کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر آئی سی سی واقعی کرکٹ کو غیر سیاستیزہ کرنا چاہتی ہے، تو اسے پاکستان جیسے ملک کو مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ میں شامل کرنا ہوگا۔ ورنہ، یہ کھیل صرف چند مخصوص ممالک تک محدود ہو کر رہ جائے گا، جو کرکٹ کی روح کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگا۔
پاکستانی عوام کی خواہش ہے کہ ان کا ملک ایک بار پھر بین الاقوامی کرکٹ کا مرکز بنے۔ لاہور کی گلیاں ایک بار پھر “دل دل پاکستان” کے نعروں سے گونجیں، قذافی اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی تالیاں کسی بھی کھلاڑی کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنیں۔ مگر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف انتظامیہ بلکہ عوامی سطح پر بھی متحد ہونا ہوگا۔ کھیل کی روح کو سیاست، دہشت گردی یا تعصب سے بالاتر رکھنا ہوگا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں