خدا حافظ — شہر یار خان
آپ میں سے اکثر حضرات کو یہ علم نہیں ہوگا کہ 4 اگست کو شہریار خان بطور چیئرمین پی سی بی اپنی تین سالہ مدت مکمل کرکے پاکستان کرکٹ بورڈ سے رخصت ہوچکے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وضع داری اور اخلاقیات کا ایک اور باب بند ہوگیا،،، ان کے بعد جو ہونے جارہا ہے اس کا ذکر آج کی تحریر میں جا بجا کرتا رہوں گا،،،، کیونکہ ان کے جانے کے بعد موقع پرست اور لوٹ مار کے عادی افراد باقاعدہ خوش ہیں اور اب ان کو ایسا کوئی نظر نہیں آرہا جو ان کی چیرہ دستیوں کے آڑے آئے،،،، بس کچھ دن انتظار فرما لیجیے آپ کو پاکستان کرکٹ بورڈ میں لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار نظر آئے گا کہ الامان الامان،،،،،،،
شہریارخان ایک کامیاب ڈپلومیٹ اور ناسازگار حالات کو بہتر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،،،، جب ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی کی عالمی جنگ عروج پر تھی تو تب بھِی یہ شہر یار خان تھے کہ جنہوں نے پاکستان کو عالمی بدنامی سے بچا کر بورڈ کو سنبھلنے کا موقع دیا،،،کھیل اور کھلاڑی کے حقوق کا تحفظ جس طرح جناب شہریار خان نے کیا اس کی نظیر پاکستان کرکٹ کے گزشتہ دس سال میں کم ہی ملتی ہے میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق کبھی بھی سکون سے پاکستان ٹیم کو لے کر نہ چلتے اور دنیائے ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ون نہ بنتے اگر شہریار خان ہر لمحہ ان کے پیچھے کھڑے نہ ہوتے،،،یہ شہریار خان ہی تھے کہ جنہوں نے مصباح الحق کے خلاف اجرتی میڈیا کا مشن پوری طرح ناکام بنایا اور ان کے کیریئر پر آنچ نہ آنے دی،،، کچھ لوگوں کے خیال میں شہر یار خان ایک کٹھ پتلی چیئرمین تھے نجم سیٹھی نے جو چاہا کیا،،،، دیکھنے میں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ مگر حالات کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اگر شہریار خان نہ ہوتے تو پاکستان سپر لیگ کب کی پرائویٹ کمپنی بن چکی ہوتی ،،،، ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی مدثر نزر کے کئی منصوبے باوجود مخالفت کے شہریار خان نے اپنے صوابدیدی فنڈز سے پورے کروائے ،،، مدثر نزر پر بھی نیشنل کرکٹ اکیڈیمی کے اندر مخالفت کی جو بھی لہر اٹھی،،شہر یار خان اس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ان کے منصوبے پورے کروائے،،،ان کے جانے کے بعد اگر نجم سیٹھی چیئرمین بن جاتے ہیں تو نیشنل کرکٹ اکیڈیمی اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک بڑی اکھاڑ پچھاڑ متوقع ہے اور یہ اکھاڑ پچھاڑ میرٹ پر نہیں بلکہ ذاتی عناد پر کی جائے گی اور اقربا پروری کا رکا ہوا سلسلہ ایک بار پھر پوری آب و تاب سے شروع ہوگا
پاکستان میں 2009 سے کوئی ٹیم کرکٹ کھیلنے نہیں آئی ،،،شہر یار خان کے اس دور کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ دوبارہ سے شروع ہوئی،،، زمبابوے کرکٹ ٹیم نے مئی 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا اور 2 ٹی ٹوئنٹی اور 2 ایک روزہ میچوں پر مشتمل سریز کھیلی،،، آج کل ستمبر میں ورلڈ الیون کی پاکستان آمد کی خبریں گرم ہیں اور نوید دی جاری ہے کہ دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے نام اس ورلڈ الیون میں شامل ہونگے،،، اب دیکھیے شہر یار خان کے رخصت ہونے کے بعد ورلڈ الیون کا دورہ پاکستان شرمندہ تعبیر ہوتا ہے یا نہیں؟
ایک بہت بڑی بارات پاکستان سپر لیگ کروانے کا کریڈٹ لیتی ہے یاد رہے کہ پی ایس ایل کا خواب سابق چیئرمین چوہدری ذکاء اشرف نے دیکھا تھا مگر اس کو منعقد کروانے کا سہرا بھی شہر یار خان کے دور کو جاتا ہے،،،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پی ایس ایل کا کریڈٹ صرف نجم سیٹھی اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے تو غلط ہے کیونکہ اگر چیئرمین پی سی بی شہر یار خان اس کو منعقد کروانے میں مدددگار نہ بنتے اور ایک بڑی رقم مختص نہ کرتے تو شاید پی ایس ایل ابھی تک صرف کاغزوں میں سانس لے رہی ہوتی
شہر یار خان نے اپنے اس تین سالہ دور میں پوری کوشش کی کہ وہ کسی طرح پاک بھارت کرکٹ پہیہ پھر سے چلانے میں کامیاب ہوجائیں مگر متعصب مودی سرکار نے ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا حالانکہ وہ پاک بھارت سیریز پر باقاعدہ معاہدہ کرچکے تھے،،، بھارتی بورڈ اور کھلاڑی تو کئی مواقع پر پاک بھارت کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنے کی التجا کرچکے ہیں مگر جب بھِی پاک بھارت کرکٹ ہوتی نظر آئی مودی حکومت نے ایک بے رحم وار سے اسے ختم کردیا،،، اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں کہ بھارت کے خلاف قانونی جنگ لڑی جائے مگر آئی سی سی کے سابق چیئرمین احسان مانی نے ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ ڈیڑھ ارب روپے ڈوبتے نظر آرہے ہیں کہ کیونکہ پاکستان کا کیس بھی کمزور ہے اور سب سے اہم پاکستان اس وقت دنیائے کرکٹ میں تنہائی کا شکار ہے اور کسی کو بھی قابل اعتماد دوست نہیں کہا جا سکتا،،، احسان مانی کے مطابق ایک ایسا بھی دور تھا جب آئی سی سی کی ہر کمیٹی میں پاکستان کی نمائندگی ہوتی تھی اور اب ماسوائے علیم ڈار کے کوئی بھی چہرہ آئی سی سی کے سرکل میں نظر نہیں آتا،،،،
شہر یار خان کے دونوں ادوار کو دیکھا جائے تو ان کو ماڈرن ایج کرکٹ کی اہمیت کا اندازہ تھا اور وہ ہر دفعہ ٹیم کے لیے غیر ملکی چوٹی کا کوچ پاکستان لے کر آئے باب وولمر اور اب مکی آرتھر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ،،،، نہ صرف قومی کرکٹ ٹیم بلکہ نیشنل کرکٹ اکیڈیمی اور ریجنز میں بھی عہد جدید کی کرکٹ کے مطابق جو بھی مانگ کی گئی شہر یار خان نے پوری کی جبکہ ان کے جانے کے بعد محسوس ہورہا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کر دیا جائے گا اور ایسا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے جس سے چھوٹے ریجنز بڑے ریجنز کے ماتحت بنا دیے جائیں گے،،،لاہور کراچی راولپنڈی اور اسلام کے بچ جانے والے کھلاڑی چھوٹے اور غلامانہ ذہنیت کے ریجنز میں گھسا دیے جائیں گے
شہر یار خان کے جانے سے یہ کہا جاسکتا ہے اور پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے ہمدردی اور میرٹ کی پاسداری جاتی رہی،،، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت شاید پہلے سے بھی کم ہوجائے کیونکہ جب قیادت کا ایجنڈہ ملکی کی بجائے ذاتی ہو تو عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے اور کوئی آپ سے سلام لینے کو بھی تیار نہیں ہوتا،،، شہر یار خان کی روانگی کے موقع پر ایک حسین اتفاق یہ بھی ہوا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا پیٹرن بھی تبدیل ہوچکا ہے اور شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کی جگہ وزارت عظمی کا قلمدان سنبھال لیا ہے اور نئی کابینہ کا بھی اعلان کردیا گیا اور اس کابینہ میں محض وہ چہرے رکھے گئے کہ جو خالصتا پاکستان مسلم لیگ کے جوشیلے ورکر رہے ہیں،،،، اب دیکھنا یہ ہے کہ شہر یار خان کے جانے پر وزیر اعظم ہاوس سے کوئی نام آتا ہے یا پھر نواز شریف کے منظور کردہ نجم سیٹھی ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنتے ہیں،،،،، شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں مشاہد حسین کو شامل کرلیا گیا مگر پرویز رشید کو کوئی وزارت نہیں دی گئی
ہو سکتا ہے کہ نئے وزیر اعظم نیا چیئرمین پی سی بی سامنے لے آئیں ورنہ یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو پاکستان سپر لیگ کا ماتحت ادارہ بنائے جانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی،،، ڈومیسٹک تو بہت دور کی بات ہے شاید قومی کرکٹ ٹیم بھی پی سی بی کی ترجیحات میں نہ رہے
اپنی رائے کا اظہار کریں