کاش یہ بابر اعظم نہ پڑھے
کیوں نہ پڑھے ؟ بھئی وہ مستقبل کا ظہیر عباس ہے، شاید ڈان بریڈ مین بن جائے، شاید ایسے ریکارڈز قائم کردے جو دنیائے کرکٹ کے کسی سرخیل بلے باز کے حصے میں نہ آئے ہوں، شاید اسے کچھ ہی عرصے بعد قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا جائے، تابی صاحب وہی تو ایک سپر سٹار ہے
میرے اچھے شائقین کرکٹ اور میڈیا یہی وہ دعوے ہیں کہ جنہوں نے شاداب کبیر، حسن رضا کو قبل از وقت کھیلا کر انتہائی باصلاحیت کھلاڑیوں کو ایسا ٹھکانے لگایا کہ وہ جاتے نظر نہ آئے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے مہان سمیع اسلم کو مستقبل کا سعید انور بنانے پر تلے ہوئے تھے مگر نیوزی لینڈ کی سر زمین پر ایسی قلعی کھلی کہ شاید اب وہ مدتوں ٹیم میں واپس آنے کو ترسے
عمر اکمل کا کیریئر کا آغاز بھی ایسا دھانسو تھا کہ کرکٹ پنڈتو نے نوید سنا دی کہ یہ پاکستانی ٹنڈولکرہے، پھر کیا تھا کہ ایسا دماغ خراب ہوا کہ پوری ٹیم سمیت کرکٹ بورڈ کو لینے کے دینے پڑھ گئے، نت نئے تنازعات، سکینڈلز نے ابھرتے ہوئے کرکٹر کی توجہ منزل سے ہٹا دی، اب وہی عمر اکمل ٹیم میں واپسی کے لیے جو جو پاپڑ بھیل رہا ہے شاید وہ اس کے شایان شان نہیں
صہیب مقصود کی صورت میں کرکٹ بورڈ کو انضمام الحق تو ملا مگر وہ اب کہاں ہے؟ شاید یہ ملتان والے بھی نہیں جانتے، حارث سہیل دوسرا وسیم راجہ بن کر ابھرا مگر روایتی جملوں نے ایسا دماغ خراب کیا توجہ محنت کی بجائے ہیرو بننے پر ایسی مرکوز ہوئی کہ دماغ کے ساتھ ساتھ گھٹنا ایسا خراب ہوا کہ جو پی سی بی کے لاکھوں لگوا کر بھی ٹھیک ہونے کو نہیں آرہا
ایک دن میں اپنی ڈیوٹی کے سلسلے میں نیشنل کرکٹ اکیڈیمی لاہور منصور رانا کے ساتھ بیٹھا تھا،
بابر اعظم اپنے کٹ بیگ کے ہمراہ پریکٹس سے فارغ ہو کر جارہا ہے تھا،منصور رانا نے اس نوجوان کرکٹر کی طرف اشارہ کرکے کہا دیکھنا آئندہ چند سالوں میں پاکستان کا نمبر ون بلے باز بن کر ابھرے گا، مجھے یہ بات سن کر ذرا بھی حیرانگی نہ ہوئی کیونکہ منصور رانا کو میں پاکستان کا بہترین کوچ سمجھتا ہوں مگر ایک دم ہاتھ جوڑ کر کہا کچا نہ کھیلا دینا
بابراعظم سے اکثر اس کے کلب میں ملاقات ہوتی رہی اور وہ ہمشہ مودب کھلاڑیوں کی طرح ملتا رہا، نیٹ کے باہر اس کے والد بھی بیٹھے ہوا کرتے تھے جنکا ہمیشہ ایک ہی تقاضہ ہوتا تھا کہ تابی آپ میرے بچے کے لیے آواز نہیں اٹھاتے اور میں ہمیشہ کہا کرتا تھا ضائع کروانا ہے تو میں حاضر ہوں، مگر ان کے والد اس بات کی حکمت سمجھ نہیں آتی تھی اور وہ ہر وقت بے چینی کا شکار رہتے تھے
ہیڈکوچ وقار یونس کے دور میں بابر اعظم کو کچھ مواقع ملے جسمیں اس نے باصلاحیت ہونے کا طبل بجا دیا تھا، میں ٹی ٹونٹی کرکٹ کی پرفارمنس کو کبھی نیشنل ٹیم میں آنے کا پیمانے سمجھنے والوں میں نہیں رہا، مگر گزشتہ برس پاکستان سپر لیگ میں بابر اعظم نے دنیائے کرکٹ کے مانے ہوئے باولرز کو جس اعتماد سے کھیلتے دیکھا وہ اس کے منجھے ہوئے بلے باز ہونے کی دلیل تھی
دوبئی میں ہونے والی پاکستان ویسٹ انڈیز سیریز میں تو بابر اعظم نے اپنی جیب مین آف دی میچ لفافوں سے بھر لی، جان لیوا گرمی میں ڈبل سنچری اور تینوں فارمیٹ میں سب سے جدا کارکردگی نے ثابت کر دیا کہ چند سال پہلے منصور رانا کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی جس کھلاڑی کی جانب گئی تھی وہ اب مکمل بلے باز کے طور پر تیار ہوچکا ہے
دوبئی سے ٹیم نیوزی لیںڈ روانہ ہوئی تو ٹیم تو دور کی بات ہمارے ناقدین بھی کانپتے نظر آئے کہ اللہ خیر کرے، مگر صاحب اللہ وہیں خیر کرتا ہے جہاں تیاری اور تکنیک مکمل ہو، پہلے ٹیسٹ کے پہلے دن بارش ہوئی تو شاہین اندر ہی اندر بغلیں بجاتے ہونگے، مگر شاہین کی ماں کب تک خیر مناتی، محض تین دنوں میں ہمارے بلے بازوں اور باولرز کے ورلڈکلاس ہونے کے تمام سرٹیفیکیٹ جعلی ثابت ہوئے
ہماری ٹیم شاید اس لیے بھی گھاس والی پچز پہ اچھا نہیں کھیلتی کہ شاہین گھاس نہیں کھایا کرتے تو بھئی جو چیز من بھاتا کھاجا نہیں تو اس پر دھمال کیسی؟ دوسرے ٹیسٹ میں شرجیل خان کی ٹیم شمولیت یقینی تھی مگر جب ٹیم کا اعلان ہوا تو وسیم اکرم، راشد لطیف سمیت سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے، جناب پہلے ٹیسٹ سات وکٹوں کے حامل راحت علی اور یاسر شاہ باہر بٹھا دیے گئے، ٹیم میں واپسی کے فن میں پی ایچ ڈی وہاب ریاض اور محمد رضوان ٹیم میں دھر لیے گئے جس کی پاداش مین کیویز نے پوری ٹیم کی ایسی اکھاڑ پچھاڑ کی کہ جو مناظر پہلے ٹیسٹ میں بھی نظر نہ آئے، عالمی شہرت یافتہ بلے باز ایسے آوٹ نظر آئے کہ جیسے ان کو بازو سے پکڑ زبردستی میدان میں اتارا گیا ہو، تیسرے نمبر آنے والے بابر اعظم کے پر اعتماد آغاز سے محسوس ہوا کہ آج وہ اس گھاس والی پچ پر بھی کچھ ایسا کرتا نظر آئے گا جو ماضی بعید ہمارے بلے باز کیا کرتے تھے، نوجوان بلے باز تو اپنی بیٹنگ کے جوہر دکھاتا رہا مگر دوسرے اینڈ پر تمام بلے باز دھوکہ دیتے نظر آئے اور یوں بابر اعظم اپنی سنچری مکمل نہ کرسکے اور ناٹ آوٹ نوے رنز کے ساتھ گراونڈ سے باہر گئے
ہر قسم کی پچ اور موسم میں بابر اعظم نے مستند بلے باز ہونے کا ثبوت تو دے دیا مگر میری خواہش ہے کہ وہ مستقبل کا ظہیر عباس، سر ڈان بریڈ مین یا جاوید میانداد کی بجائے محض بابر اعظم ہی رہے، اپنی توجہ دائیں بائیں کی سیاست کی بجائے محض کارکردگی پر مرکوز رکھے، چند اننگز میں اچھی بیٹنگ کو بھول کر آگے دیکھے، ٹی وی ایڈز کا کردار بننے کی بجائے مصباح الحق کی طرح اپنے ہنر میں نکھار لانے میں مصروف رہے ورنہ وکٹ کیپر بلے باز ذوالقرنین حیدر کی طرح کسی ایسے معاملے میں الجھا دیا جائے گا کہ کچھ عرصہ بعد ہمیں پتہ بھی نہ ہوگا کہ کوئی بابر اعظم بھی ہوا کرتا تھا
اپنی رائے کا اظہار کریں