ہار کا خوف
ہار کا خوف۔۔۔
محمد فیاض : ابو ظہبی
پاکستانی قوم 25 مارچ کو ہمیشہ ایک خوبصورت دن کے طور پر یاد کرتی ہے کیونکہ 25 مارچ 1992 کو عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کو فائنل میچ میں ہرا کر نئے ولڈ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا
آج کل آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے تاریخی دورے پر ہے پاکستان کے خلاف کھیلے گئے پہلے دونوں ٹیسٹ میچ کسی نتیجے کے بغیر اختتام کو پہنچے مگر لاہور میں ہونے والے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو 115 رنز سے شکست دے کر میچ اور سیریز اپنے نام کر لی اس طرح ولڈ کپ 1992 کی جیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 25 مارچ 2022 کو آسٹریلیا کے ہاتھوں ہونے والی یہ شکست بھی تاریخ میں لکھی گئی ہے
ایشیائی ممالک میں کھیلنا آسٹریلیا جیسی ٹیم کے لیے ہمیشہ مشکل رہا ہے اور جیت کے لیے انہیں بہت محنت کرنا پڑتی ہے ایشیائی ممالک میں اسپنرز ہمیشہ سے بہت اہم رہے ہیں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا ہمیشہ اپنے گیند بازوں کے مطابق پچیز تیار کرتے رہے ہیں اور ان کو اس چیز کا فائدہ بھی ہوا ہے ہر کرکٹ ٹیم اپنے ملک میں ہونے والی سیریز میں ہوم کنڈیشنز کا لازمی فائدہ اٹھاتی ہے مگر شاید پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس کے برعکس سوچتی ہے؟ حالانکہ کہ اس وقت پاکستان کے پاس دنیا کے بہترین گیند باز موجود ہیں اور میرے خیال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی یہ حکمت عملی ہونی چاہیے تھی کہ وہ اس سیریز کے لئے ایسی پچیز بناتے جس سے ان تیز گیند بازوں کو مدد ملتی
مگر اس ٹیسٹ سیریز میں جو پچیز بنائی گئیں وہ ان کے مطابق نہیں تھیں تینوں میچوں میں پچیز کا معیار وہ نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا ایسے لگتا تھا یہ پچیز صرف بیٹرز کے لیے بنائی گئی تھیں؟
اس کے ساتھ ساتھ مگر حیران کن طور پر اس پوری سیریز میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے دفاعی حکمت عملی اپنائے رکھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم صرف میچ ڈرا کرنے کے لیے کھیل رہی ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی حکمت عملی دیکھ کر کہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ وہ ماڈرن کرکٹ کھیل رہے ہیں اگرچہ ٹیسٹ میچ بلے بازوں کا امتحان ہوتا ہے مگر ٹیسٹ میچ میں بھی رنز بنانے ہوتے ہیں جس کا شاید پاکستان کی ٹیم کے بلے بازوں کا اندازہ نہیں؟
تیسرے ٹیسٹ میچ کے چوتھے دن جب آسٹریلیا کے کپتان نے 227/3 پر اپنی دوسری اننگز ختم کرنے کا اعلان کیا اور پاکستان کی ٹیم کو جیت کے لیے 120 اوورز میں 351 رنز کا حدف دیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آسٹریلیا کے کپتان نے تھوڑی جلدی کر دی ہے اور یہ فیصلہ ان کے خلاف بھی جا سکتا ہے سونے پر سہاگہ پاکستان کی ٹیم نے چوتھے دن کے اختتام پر بغیر کسی نقصان کے 70 رنز بنائے تو ایسے محسوس ہوا کہ پاکستان یہ ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا کھیل کے پانچویں دن آسٹریلیا کے گیند بازوں کے سامنے پاکستانی بلے باز بے بس نظر آئے
ماڈرن کرکٹ میں ہر کرکٹ ٹیم اپنی مدمقابل ٹیم پر اٹیک کرتی ہےاور ان پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ابھی بھی یہ 90 کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہے ہیں رواں سال متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے ٹی 20 ولڈکپ میں پاکستان کی حکمت عملی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی نئی آنے والی مینجمنٹ نے ماڈرن کرکٹ کی حکمت عملی کو اپنایا ہے اور اب ہمیں پاکستان کی بالکل نئی کرکٹ ٹیم دیکھنے کو ملے گی جو جو ماڈرن کرکٹ کھیلے گی مگر آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ صرف چہرے بدلے ہیں سوچ نہیں؟ پوری سیریز میں ایسے لگ رہا تھا جیسے پاکستان کو جیتنے سے زیادہ ہارنے کا ڈر ہو اور یہ ہی ڈر آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی شکست کا باعث بنا دوسری طرف جس طرح سے آخری ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا کے کپتان نے اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا اور پاکستان کو 351 رنز کا ہدف دیا یقینا وہ ایک دلیرانہ فیصلہ تھا بےشک قسمت بھی ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے ورنہ بہت پرانی کہاوت ہے جو ڈر گیا وہ مر گیا آسٹریلیا نے جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی اور وہ کامیاب ہوئے آسٹریلیا کی ٹیم کے کپتان اگر چاہتے تو اپنے بلے بازوں کو مزید کھیلنے کا موقع دے سکتے تھے اور اپنی اننگز کا اختتام اس وقت کرتے جب ان کو سو فیصد یقین ہو جاتا کہ پاکستان اب اس ٹیسٹ میچ کو جیت نہیں سکتا مگر انہوں نے دلیرانہ فیصلہ کیا اور جیت حاصل کی
پاکستان کا یہ دفاعی انداز ولڈ ٹیسٹ سیریز میں پوائنٹس بچانے کی حکمت عملی بھی ہو سکتا ہے مگر اس طرح کے دفاعی انداز سے یقینا نقصان ہی ہوتا ہے فائدہ کم ۔اگر پاکستان کو ولڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں آگے جانا ہے تو انہیں ماڈرن کرکٹ کا انداز اپنانا ہو گا اور شکست کا خوف دل سے نکالنا ہو گا
اپنی رائے کا اظہار کریں