کیا نا شکری ہماری بے سکونی کی وجہ ہے؟ حل کیا ہے
اس دور میں آپ اکثرئیت کو یہ کہتے سنتے ہوں گے کہ اس آمدنی میں میرا گزارہ نہیں ہو رہا۔وہ آمدنی بیس ہزار ماہانہ ہو یا 2 لاکھ ماہانہ ہو۔
کسان فصل کی پیداوار آمدن سے مطمئن نہیں۔نوکری کرنے والے دفتری حالات تنخواہ ساتھیوں کے روئیے باس کے سلوک سے شاکی ہے۔
کاروبار کرنے والے کم بچت زیادہ اخراجات حکومتی مسائل اور ورکرز کی بے ایمانی بے وفائی کا رونا رو رہے ہیں۔
بیماریوں کی بہتات ہے۔لوگ سالوں علاج دوائیوں سے تندرست نہیں ہو پاتے۔مہنگے سکولوں میں لاکھوں فیسیں دینے والے اپنے بچوں کی پڑھائی سے مطمئن نہیں۔
اور حکومت عوام کے خلاف گلے شکووں کا دفتر کھولے بیٹھی ہے۔
تین چار دہائیاں پہلے کی ذندگی اور آج کی زندگی میں بہت فرق ہے۔آج ہر شخص بے شمار ان آسائیشوں سے مستفید ہو رہا ہے جسکا پہلے خواب خیال ہی تھا۔کھانا پینا رہنا پہننا ذرائع آمدو رفت و توانائی سب کچھ ہر شخص کا پہلے سے کسی نہ کسی طور بہتر ہے۔
اس کے باوجود ایک عجیب بے چینی ہے۔
پرانے دور کے لوگ اس کو بے برکتی کا نام دیتے ہیں۔۔
پرانے دور میں لوگوں کے پاس بجلی گیس گاڑی بائیک نرم بستر پکے گھر موبائل لیپ ٹاپ ٹریکٹر ٹیوب ویل نہیں تھے لیکن وہ مطمئن اور خوشحال زندگی گزارتے تھے۔وہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ سے پرلطف ہوتے تھے۔وہ بے فکری اور شان کی زندگی گزارتے تھے اور جب مرتے تھے تو ان کے چہروں پر اطمینان اور سکون کی وہ مسکراہٹ ہوتی تھی جو کسی مقصد کی تکمیل کے بعد انسان کے چہرے پر خودبخود آ جاتی ہے۔آج کی نوجوان نسل تو شائد ان باتوں سے بےخبر ہو لیکن60 ۔۔70 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں نے بھی آج کی پریشانیوں بھری اور بے چینی کی زندگی کو دیکھ کر کبھی اس پر غور کیا کہ ایسا کیوں تھا؟؟؟؟
ان لوگوں میں حرص نہیں تھا۔وہ جھوٹے دھوکے باز اور خود غرض نہیں تھے۔وہ پڑوسی کو حقیقی ماں جایہ سمجھتے تھے۔وہ بہن بھائیوں برادری دوستوں کے دکھوں اور خوشیوں میں بغیر کسی دنیاوی لالچ یا خودنمائی کے، مخلص ہو کر شریک ہوتےاور دوسرے کی خوشی غم کو اپنا حقیقی غم سمجھتے تھے۔کسی کے گھر میں مہمان آ جانے کی صورت میں وہ اپنے گھر سے اس کی تواضع کرنا فرض سمجھتے۔وہ برتنے کہ چیزوں میں بخل نہیں کرتے تھے۔
وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا عار نہیں سمجھتے تھے۔
وہ اپنی ذمینوں پر بیلوں سے ہل چلا کرضرورت پڑنے پر دوسرے کی زمین بھی تیار کر دیتے تھے۔وہ بینک تجوریاں بھرنے کے بجائے اپنی کمائی میں سے اپنے غریب رشتہ داروں اور دوستوں کی مدد فرض سمجھتے۔وہ ذائد رقم سے پلاٹ کوٹھی نئی کاریں خریدنے کے بجائے کسی ضرورت مند جاننے والے کو قرض دے دیتے۔
وہ 2 گز زمین کے لیئے تھانوں عدالتوں وکیلوں کی خدمات نہیں لیتے تھے۔وہ خالص چیزیں بیچتے کم منافع کماتے اور پورا تولتے۔وہ ساری رات سوتے اور سورج نکلنے سے پہلے جاگ کر سارا دن سورج غروب ہونے تک اپنے کام کرتے۔وہ فون پر خیرئیت پوچھ کر سالوں ملاقات سے اجتناب کے بجائے روزانہ یا ہفتے مہینے بعد پہروں بیٹھ کر ایک دوسرے کے حال احوال پوچھتے اور دکھ سکھ ایک دوسرے کو بتا کر تازہ دم ہو جاتے۔
وہ بڑوں کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے اور چھوٹوں پر دست شفقت رکھتے۔
وہ پرائی عورتوں کو اپنی ماں بہن بیٹی سمجھتے اور انکی عزت کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے۔
وہ نمود و نمائش سے ہزاروں میل دور ہوتے اور کسی اپنے سے زیادہ خوشحال سے اپنا موازنہ نہ کرتے۔
وہ رات ہر کمرے میں مقید ہو کر الگ ٹی وی چلا کر اپنے من پسند پروگرام دیکھنے کے بجائےچوپالوں بیٹھکوں ڈیروں پر ایک ٹی وی لگاتے اور پورا محلہ یا گاوں ایک جگہ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ٹی وی فلمیں دیکھتے
وہ کھانا ڈائنگ ٹیبل قیمتی برتنوں میں کھانے کے بجائے چارپائیوں اور چٹائیوں پر اکٹھے بیٹھ کر مٹی کے ایک سادہ برتن میں اکٹھے کھاتے لیکن اس کھانے میں جراثیم لگنے کے ڈر اور دوسروں کی پلیٹوں پر نظر رکھنے سے ذیادہ اتفاق عاجزی کی مٹھاس ہوتی۔
وہ شاکر لوگ تھے قناعت پسند اور توکل کرنے والے سچے اور کَھرے لوگ تھے۔
کیا ہم یہ سب پڑھ کر آج کی بے برکتی بے سکونی کی وجہ کو پا سکیں گے؟؟؟؟
اپنی رائے کا اظہار کریں