More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

پاکستان کھلاڑیوں کی 100 بالز لیگ انگلینڈ سے بھی چھٹی

پاکستان کھلاڑیوں کی 100 بالز لیگ انگلینڈ سے بھی چھٹی
آفتاب تابی
آفتاب تابی

برطانوی کرکٹ لیگ ’دی ہنڈرڈ‘ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی غیرموجودگی: وجوہات اور اثرات

برطانیہ کے نیا اور منفرد کرکٹ ٹورنامنٹ ’دی ہنڈرڈ‘ نے حال ہی میں اپنے دوسرے ایڈیشن کے لیے کھلاڑیوں کی ڈرافٹ لسٹ جاری کی، جس میں ایک حیران کن بات سامنے آئی: کسی بھی فرنچائز نے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے مایوسی کا باعث بنا ہے، بلکہ اس نے بین الاقوامی کرکٹ کے حلقوں میں بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان جیسے کرکٹ سپر پاور کے کھلاڑیوں کو نظرانداز کیا گیا؟ کیا یہ محض کھیل کی سیاست کا شاخسانہ ہے، یا پھر پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی اور دستیابی سے جڑے مسائل ہیں؟ اس بلاگ میں ہم ان تمام پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

’دی ہنڈرڈ‘ برطانیہ کا ایک نیا اور دلچسپ کرکٹ ٹورنامنٹ ہے، جو 100 بالز کے ایک انوکھے فارمیٹ پر مبنی ہے۔ یہ لیگ نہ صرف تیز رفتار کرکٹ پیش کرتا ہے، بلکہ اس میں دنیا بھر کے نامور کھلاڑیوں کی شرکت اسے خاص بناتی ہے۔ پہلے ایڈیشن میں بھی بین الاقوامی اسٹارز جیسے کہ ایلن بارڈر، ڈیوڈ وارنر، اور آندرے رسل نے حصہ لیا تھا۔ اس سال کی ڈرافٹ لسٹ میں آسٹریلیا، بھارت، ویسٹ انڈیز، اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کے کھلاڑی تو شامل ہیں، لیکن پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی اس فہرست میں جگہ نہیں بنا سکا۔

پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے بین الاقوامی لیگز میں شرکت اکثر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی پالیسیوں سے جڑی ہوتی ہے۔ پی سی بی نے حال ہی میں کھلاڑیوں کو لیگ میں شرکت کی اجازت دینے کے لیے سخت شرائط عائد کی ہیں، خاص طور پر اگر یہ ٹورنامنٹ قومی ڈیوٹی کے شیڈول سے ٹکراتا ہو۔ ’دی ہنڈرڈ‘ کا دورانیہ جولائی اور اگست میں ہے، جو پاکستان کی گھریلو سیریز اور تیاریوں کے ساتھ متصادم ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ فرنچائزز نے دستیابی کے عدم یقین کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کو ترجیح نہ دی ہو۔

گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی غیر مستقل کارکردگی بھی ایک اہم عنصر رہی ہے۔ ٹی20 ورلڈ کپ 2022 میں پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے باوجود، کئی کھلاڑیوں کی انفرادی پرفارمنس مایوس کن رہی۔ مثال کے طور پر، محمد رضوان جیسے وکٹ کیپر بلے باز کو ان کی کمزور اسٹرائیک ریٹ کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا، جبکہ شاہین آفریدی جیسے تیز رفتار باؤلرز بھی انجریز کی وجہ سے غیر مستقل رہے۔ فرنچائز مالکان ممکنہ طور پر ایسے کھلاڑیوں سے گریز کرتے ہیں جو مسلسل پرفارمنس دینے میں ناکام رہے ہوں۔

پاکستان اور برطانیہ کے درمیان حالیہ برسوں میں کھیلوں کے میدان میں سفارتی تعلقات میں کوئی بڑا تناؤ تو نہیں دیکھا گیا، لیکن ویزہ پالیسیوں اور سکیورٹی خدشات جیسے مسائل نے پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یورپ میں کھیلنا مشکل بنا دیا ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ فرنچائزز کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت سامعین کی دلچسپی کم کر دے گی، خاص طور پر ایسے وقت میں جب برطانیہ میں جنوب ایشیائی کمیونٹی کے باوجود بھی بھارتی کھلاڑیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

’دی ہنڈرڈ‘ میں کھلاڑیوں کی فیس کا تعین ان کی مارکیٹ ویلیو اور پاسٹ پرفارمنس کے مطابق ہوتا ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی مالیاتی اہمیت دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں کم سمجھی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، بھارتی کھلاڑی نہ صرف کھیل میں بلکہ مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے لحاظ سے بھی زیادہ پرکشش ہوتے ہیں۔ فرنچائزز کے لیے یہ معاشی طور پر فائدہ مند نہیں کہ وہ ایسے کھلاڑیوں پر سرمایہ کاری کریں جو ٹیم کی مالیاتی کامیابی میں کم کردار ادا کریں۔

پاکستانی کرکٹرز کا ماضی میں فکسنگ اسکینڈلز اور ڈسپلن کی خلاف ورزیوں سے جڑا ہونا بھی فرنچائزز کے لیے ایک خطرہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، شعیب ملک اور محمد عامر جیسے کھلاڑیوں پر لگنے والے فکسنگ کے الزامات نے بین الاقوامی لیگز میں ان کی شمولیت کو متاثر کیا ہے۔ اگرچہ یہ واقعات پرانے ہیں، لیکن فرنچائز مالکان ممکنہ طور پر ایسے کھلاڑیوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کا ماضی متنازع رہا ہو۔

بین الاقوامی لیگز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی غیرموجودگی ملک کی کرکٹی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی کمی ہے، جبکہ حقیقت میں یہاں کے نوجوان کھلاڑیوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ بین الاقوامی لیگز میں شرکت نوجوان کھلاڑیوں کو تجربہ حاصل کرنے اور خود کو عالمی سطح پر پرکھنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اس موقع سے محرومی ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ لیگز میں شرکت نہ ہونے سے کھلاڑیوں کو معاشی فائدے بھی کم ملتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ مواقع نہ صرف آمدنی کا ذریعہ ہیں، بلکہ ان کی برانڈ ویلیو کو بھی بڑھاتے ہیں۔ جب کھلاڑی بین الاقوامی لیگز میں نہیں کھیلتے، تو وہ قومی ٹیم کی کارکردگی پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر ناکامی پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پی سی بی کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کے لیے بین الاقوامی لیگز میں شرکت کو آسان بنائے۔ شیڈولنگ کے مسائل کو حل کرنے اور فرنچائزز کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرنے سے کھلاڑیوں کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو کوچنگ اور فٹنس کے جدید پروگرامز فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بین الاقوامی معیارات پر پورا اتر سکیں۔ کھلاڑیوں کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کے لیے پی سی بی اور کھلاڑیوں کو اپنی برانڈنگ پر کام کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کی فعال موجودگی اور عالمی اسپانسرشپ حاصل کرنا اس میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کھلاڑیوں کو ڈسپلن اور اخلاقیات کی تربیت دی جائے تاکہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکیں۔

’دی ہنڈرڈ‘ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی غیرموجودگی پاکستان کرکٹ کے لیے ایک ویک اپ کال ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پی سی بی اور کھلاڑیوں کو اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ بین الاقوامی لیگز میں شرکت نہ صرف کھلاڑیوں کی انفرادی ترقی کے لیے ضروری ہے، بلکہ یہ پاکستان کرکٹ کی عالمی ساکھ کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ امید ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستانی کھلاڑی نہ صرف ’دی ہنڈرڈ‘ بلکہ دنیا بھر کی لیگز میں اپنی جگہ بنائیں گے۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں