کھیل -ترقی کا زینہ
بچپن سے سُنتے چلے آئے ہیں کہ جان ہے تو جہاں ہے ورنہ ہر چیز بے جان ہے۔ دادا دادی نانا نانی بڑے بوڑھے بزرگ ہمیشہ سے ہی کہتے آئے ہیں کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیلو کودو بھی تاکہ جسم اور ذہن توانا اور تندرست رہے۔ اب عمر کے کافی عرصے گزارنے کے بعد اس فلسفے پر یقین ہوگیا ہے کہ زندگی کی رعنائیوں اور دنیا کی خوبصورتی کیلئے پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ کھیل اور کھلاڑی بھی ضروری ہیں۔دنیا کے کئی مہذب اور معتبر معاشروں نے اپنے آپ کو اس مقام تک لانے کیلئے صرف پڑھائی کو ہی ترقی کا زینہ نہیں سمجھا ، اُنہوں نے بہت پہلے بلکہ کئی صدیوں پہلے کھیل کوبھی ترقی کا زینہ سمجھ لیا تھا ۔ اور دیکھ لیجئے (تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ) دنیا کے کئی ممالک ارجنٹائن ، برازیل ،نیوزی لینڈ ، کیوبا، جمیکا، ملائیشیا ، ہالینڈوغیرہ وغیرہ اپنی آج کی موجودہ کھیل کے علاوہ کی شہرت سے پہلے کھیل اور کھلاڑی معاشرہ کی بنیاد پر ہی مشہور ہوئے تھے۔ ان ہی اور ان جیسے کچھ اور ممالک نے فٹبال ، کرکٹ، باکسنگ، ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، ہاکی وغیرہ وغیرہ سے ہی ان ممالک کی وجہ شہرت بنے۔ کھیلوں ہی کی وجہ سے دنیا کی کئی جنگیں ختم ہوئیں کھیلوں ہی کی وجہ سے دنیا کے چند خطوں میں امن آیا بڑی بڑی مشہور “بٹوارے ” کی دیواریں تک انہی کھیلوں کی وجہ سے منہدم ہوئیں۔ کھیلوں ہی کی وجہ سے بڑے بڑے امراض کے خاتمے کیلئے دنیا نے چند کھلا ڑیوں کو “نمائندہ سفیر ” بنایا۔ کھیلوں ہی کی وجہ سے 1980میں اقوامِ متحدہ ٹوٹتے ٹوٹتے بچا جب امریکہ ایران عراق والا مسئلہ چل رہا تھا تب 1980کے روس اولمپک نے کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کو ٹوٹنے سے بچایا تھا۔ وہ بات الگ ہے کہ پاکستان نے اُس اولمپک کا بائیکاٹ کیا تھا۔ کھیلوں ہی کی وجہ سے غریب اور نادار گھر کا بچہ عالمی افق پر اپنی پہچان کرادیتا ہے۔ کھیلوں ہی کی وجہ سے معمولی سے معمولی آدمی تک کو “سر” کا خطاب مل جاتا ہے۔
کھیلوں کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا مگر پھر میں سوچتا ہوں کہ آج کے پاکستان کو کیا ہوا ہے کہ 1947کے بعد سے لیکر ابھی کچھ 10/20سالوں پہلے تک ہم پاکستانی بھی کھیلوں میں منفرد مقام رکھتے تھے ۔ یہاں پاکستان کی کھیلوں میں عظمت اور دنیا کے سامنے شان بتانے کو صرف اتنا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا کہ جسکو بیک وقت چار مختلف کھیلوں میں عالمی اعزاز رکھنے کا “منفرد اعزاز ” حاصل تھا ۔ ملک پاکستا ن کرکٹ ہاکی اسنوکر اسکواش کا ایک ہی وقت میں عالمی چیمپین بھی رہ چکا ہے۔ جب ہر عقل مند کھیلوں کی اہمیت کو جان چکا ہے کھیل بھی ملکوں کی ترقیوں کے زینوں میں سے ایک زینہ ہے تو پھر کیوں آج پاکستان میں کھیل زبوں حالی کسمپر سی کا شکار ہے۔ کیوں ہمارے حکمران اور عہدے داران کھیل کی طرف حقیقی معنوں میں توجہ نہیں دے رہے۔ کیوں لوگوں کو جھوٹے جھوٹے دعوے وعدے قسمیں اور خواب دے دے کر اپنی آخرت کو خراب کر رہے ہیں۔ میں یہاں جذباتی بات اس لیئے کرنے لگا ہوں کہ عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ نہ کرنے کا عذاب تو اللہ کے ہاں تیار رکھا ہے کل کے حسین پاکستان میں جہانگیر خان جان شیر خان عمران خان جاوید میانداد محمد یوسف اصلا ح الدین سمیع اللہ حسین شاہ جیسے لوگ مشہور تھے۔ مگر آج پاکستان میں دیکھ لیجئے کہ ہمارے یہاں کے دہشت گرد ٹارگٹ کلرز دہشتگردوں کے سہولت کار مشہور ہیں ۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پاکستان کرکٹ بورڈ ان عناصروں پر مشتمل ہمارے ملک پاکستان کا تکونہ اسپورٹس کلچر ہے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کھیل اور کھلاڑی کی تیکنیکی اور فنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا ادارہ ہے پاکستان اسپورٹس بورڈ ماسوائے کرکٹ کے تمام کھیلوں کا مالیاتی اور انتظامی ادارہ ہے جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ ملک پاکستان میں کرکٹ کو قائم رکھنے کا خود مختار ادارہ ہے۔ مگر ان اداروں کی اہلیت جانچی جائے تو قسم خدا کی اہلیت ہی نہیں ملے گی۔ ملک پاکستان میں چھوٹے بڑے 48اقسام کے کھیل کھیلے جاتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر ریجسٹرڈ بھی ہیں مگر ان اداروں کے عہدے داروں سے ذرا پوچھیئے کہ کرکٹ کے علاوہ کس کھیل میں ہم ٹاپ 10میں ہیں۔ ہمارا سب سے بہترین نمبر ہاکی قومی کھیل کا ہے جوکہ تیرہواں بنتا ہے۔ فٹ بال میں ہم ڈیڑھ سویں نمبر سے بھی نیچے ہیں اسکواش میں ہم 19/20ویں نمبر پر ہیں اور باقی کھیلوں کے نمبر ز تو مجھے ڈھو نڈھنے سے بھی نہیں ملے اور ذرا پڑوس کے چند ممالک کی طرف نظر دوڑائیے تو اریب قریب کے 10ممالک تقریباََ 8مختلف کھیلوں میں ٹاپ 5نمبرز پر آتے ہیں۔
قارئینِ کرام پاکستان میں کھیلوں کی زبوں حالی پر کیا کیا لکھا جائے اور کتنا لکھا جائے یہ ہمارے عہدیداران اور حکمران دونوں ہی اندھیروں میں رہنے کے شوقین ہیں ۔ تمام صوبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن کے ذریعے کھیلوں کی ترویج اور ترقی کیلئے موثر اور جاندار کام کیا جائے کھلاڑیوں کے مسائل کا خاتمہ کیا جائے نئے نئے اسپانسرڈ ڈھونڈے جائیں سرکاری اداروں بشمول اسکولز کالجز یونیورسٹیز میں کھیلوں کو لازمی حصہ بنوائیں اور جو اس عمل میں تاخیر یا انکاری کا موجب بنے تو اُسکے خلاف بھرپور کاروائی کرے ۔ مگر ذرا آگے ملاحظہ فرمائیے یہ صوبائی اولمپک ایسوسی ایشنز کیا کھیلوں کی ترقی کیلئے کام کریں گی جنکے اپنے مسائل ہی ختم ہو کر نہیں دے رہے۔ صوبہ سندھ کا حال دیکھئے ایک صوبے میں دو متوازی اولمپک ایسوسی ایشن کام کر رہی ہیں ایک سندھ اولمپک ایسوسی ایشن احمد علی راجپوت گروپ کہ جسکو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی مبینہ سرپرستی حاصل ہے تو دوسری اولمپک ایسوسی ایشن مدثر آرائیں گروپ کہلاتی ہے کہ جو کہ خالصتاََ سُپریم کورٹ کے آرڈر اور اُن کے ناظر کے سامنے کے الیکشنز کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اب یہ دیکھئے کہ جب پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن خود ہی سُپریم کورٹ کے آرڈر کو فالو اپ نہیں کرے گی عدالت کے فیصلے سے روگردانی کر کے غیر آئینی اور غیر اخلاقی کام کرے گی تو کھیلوں کی ترقی کیسے ہوگی۔ یہ اور اس طرح کے کچھ اور عوامل پاکستان میں کھیلوں کی زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں۔ بھئی سیدھی سی بات ہے یا تو سُپریم کورٹ کے آرڈر والی کو سرکاری سطح پر بین کر دیا جائے یا پھر اقر باپروری کی مثال دوسری اولمپک ایسوسی ایشن کو کام کرنے سے روکا جائے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اولمپک ایسوسی ایشنز کا بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے کہ کھلاڑیوں کے ہاسٹلز کیلئے لئے گئے کروڑوں روپوں کے فنڈز افسرانِ بالا کے پیٹوں میں پڑے ہیں ۔ اب نہ تو ہاسٹلز ہیں اور نہ کیمپس وغیرہ لگ سکتے ہیں ۔تو جب کھلا ڑیوں کی ٹریننگ ہی نہیں ہوگی تو کھلاڑی تیار کیسے ہونگے۔ پنجاب کے حوالے سے کچھ تھوڑا بہت اطمینان ہے وہ بھی اس لئے کہ وہاں حمزہ شہباز شریف کی ذاتی توجہ ہی کافی ہے ۔ میں یہاں حمزہ شہباز شریف اور وزیرِ اعظم پاکستان محمد نواز شریف سے خصوصی اپیل کرونگا کے خدا کے واسطے ملکوں کی ترقی کے ایک زینے کو خاکستر نہ کیجئے ورنہ قوم کی ترقی کے لازمی عنصر سے قوم کو ہاتھ دھونا پڑے گا۔
قارئینِ مہربان تحریر کے اختتام پر آپ لوگوں سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ اپنے اپنے بچوں کو کھیلوں کی طرف بھی راغب کیجئے کیونکہ جسم کے تندرست اور توانا ہونے پر ہی خاندان کی امیری قائم ہے۔ اگر بیمار ذہن اور لاغر جسم سے یہ توقع کی جائے کہ وہ ایٹمی سائنسدان یا پھر چاند پر قدم بوسی کرے تو یہ اپنے آپ سے ایک مذاق ہوگا ۔بنیادی طور پر ملک پاکستان میں اسپورٹس کلچر ہے ہی نہیں، ہم لوگ صرف الف بے تے اور ون ٹو تھری کو ہی علم سمجھ کر سکون میں ہیں جبکہ ہماری ہمارے بچوں کی ملک و قوم کی عاقبت اسی میں ہے کہ بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان کا بھی رُخ کریں۔ آج ملک پاکستان میں کھیلوں کی زبوں حالی کے ذمہ داران میں وہ ماں باپ بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے کھیلوں کو اہم سمجھ کر بھی بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب نہیں کیا۔ وسائل چھوٹے ہوں یا ناپید کھیل ترقی کا زینہ تھا اور ترقی کیلئے ایک زینہ رہے گا۔ نصابی تعلیم انسان کو شعور اور آگاہی تو بخش سکتی ہے مگر غیر نصابی سرگرمیاں معاشروں کو بدبودار ہونے سے بچاتی ہیں۔ اُمید ہے کہ تحریر سے سبق یہ نکالا جائے گا کہ حکمران ہوں یا عوام الناس پاکستان میں کھیلوں کی زبوں حالی کے خلاف ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کرے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں