سکواش میں حکمرانی کب واپس آئے گی
ورلڈ اوپن سکوائش ٹائٹل 25 سے زائد مرتبہ برٹش اوپن چیمپیئن شپ، لگاتار 555 میچ جیت کر دنیائے سپورٹس کے منفرد ایتھلیٹ کا ریکارڈ، 1950 سے 1998تک تقریبا پانچ صدیوں تک سکوائش کورٹس پر حکمرانی کرنے والا ملک پاکستان، ہاشم خان سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ روشن خان سے ہوتا ہوا قمر الزمان پھر جہانگیر اور جانشیر خان پر پہنچ کر ایسا تھما کے دیئے کے اس چراغ کیلئے کئی بار شمع جلائی گئی مگر بے سود ثابت ہوئی۔ کرکٹ کی رنگینی سے بھرپور جنون نے نوجوان سکوائش کھلاڑیوں کو اپنی طرف کھینچا تو رہی سہی کسر ملکی سیکورٹی صورتحال نے پوری کردی۔ کبھی جہانگیر اور جانشیر خان کا تنازع میڈیا کی زینت بنا تو کبھی سکوائش فیڈریشن سے سنئیر کھلاڑیوں کے خراب تعلقات شہ سرخی بن کر سامنے آمنے لگے۔ عالمی سکوائش کی دنیا سے نام پاکستان مدھم سا ہونے لگا۔ کھلاڑی مقابلوں میں شرکت کیلئے بیرون ملک جاتے اور پھر انفرادی کیریر کے حصول کیلئے ملک واپسی کو موخر کردیتے۔ نوجوانوں کیلئے رول ماڈل صرف کتابوں اور فیڈریشن کے کمروں میں سجی تصویروں تک رہ گئے۔ ایسے میں عامر اطلس نے محنت شروع کی اور کیریر بیسٹ رینکنگ میں 14ویں پوزیشن بھی حاصل کی پاکستان کو ایک بار ورلڈ جونئیر سکوائش چیمپئن شپ کا ٹائٹل بھی جتوایا مگر پھر فیڈریشن سے معاملات بگڑے کارکردگی پر اثر پڑا اور آہستہ آہستہ رینکنگ میں تنزلی نے انہیں 65ویں پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ جانشیر خان کو کوچنگ سونپی گئی مگر نت نئے تنازعات سے لیجنڈری کھلاڑی اور فیڈریشن میں دوریاں پیدا ہوگئیں۔ سکول اور کالجز سمیت گراس روٹ لیول پر مقابلوں کے انعقاد میں واضح کمی آ گئی۔ سپانسرز نے مخصوص کھلاڑیوں کو مخصوص حیثیت میں سپانسر کرنا شروع کردیا۔ جو کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی پر اثر انداز ہونے لگا۔ لیکن پھر جہانگیر خان انٹرنیشنل فیڈریشن کے صدر منتخب ہوگئے۔ حکومتی عدم دلچسپی کا شکار سکوائش فیڈریشن کیلئے پاکستان ائیر فورس نے تیزی سے کام شروع کردیا، سپانسرز ڈھونڈنا شروع کردیے۔ جانشیر خان نے اکیڈمی کے قیام کا اعلان کیا۔ فیڈریشن نے بھی اسلام آباد میں قومی سکوائش اکیڈمی قائم کردی۔ جہانگیر خان نے بھی کراچی میں اکیڈمی قائم کی۔ را ٹیلنٹ کو چھوٹی عمر میں ہی تراشنے کا کام شروع ہوگیا اور بلآخر سال 2016 میں قومی نوجوان کھلاڑیوں نے پہلے ایشین سکوائش چیمپئن شپ جیتی پھر آٹھ سال بعد ورلڈ جونئیر سکوائش چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیت کر ملک میں سکوائش کے کھیل میں نئی روح پھونک دی۔ بلاشبہ ملک میں سکوائش کا ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے۔ اکیڈمیز میں کھلاڑیوں کی سکلز میں بہتری پر محنت کی جارہی ہے۔ تاہم قومی کھلاڑیوں کو ابھی فزیکل فٹنس پر کافی محنت کرنا ہوگی۔ فزیکل فٹنس عالمی معیار کے برابر کرنے کیلئے کھلاڑیوں کو انفرادی محنت کرنا ہوگی۔ فیڈریشن نے ڈسپلن کے معیار کو بڑھانے کیلئے نئی پالیسی لاگو کی ہے۔ کھیل کو کھلاڑی کے نام پر فوقیت دی جاری ہے۔ کھلاڑیوں کو ڈسپلن میں بہتری کیلئے لیکچرز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ جانشیر خان کو مشیر برائے صدر سکوائش فیڈریشن مقرر کردیا گیا ہے۔ جانشیر خان، جہانگیر خان اور گوگی علاودین جیسے بڑے کھیل کی بہتری کیلئے فیڈریشن کو مکمل رپورٹ دے چکے ہیں۔ جس پر عمل پیرا فیڈریشن بہتر نتائج کیلئے پرامید ہے۔ فیڈریشن کا مقصد برٹش اوپن ٹائٹل کا حصول سے ہے۔ 1997 سے اب تک کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی انٹرنیشنل سکوائش رینکنگ کی ٹاپ 10 پوزیشن میں جگہ نہیں بناسکا۔ فیڈریشن کی جانب سے کھلاڑیوں کی فٹنس پر کام کرنے سے پہلی دس پوزیشن پر لانا ہے۔ اس وقت سکوائش کی دنیا پر مصری، فرانسیسی اور برطانوی کھلاڑیوں کی اجارہ داری ہے۔ عالمی رینکنگ میں 52ویں پوزیشن پر موجود نوجوان کھلاڑی فرحان زمان پاکستان کی جانب سے سب سے آگے ہیں۔ دوسرے قومی کھلاڑی ناصر اقبال عالمی رینکنگ میں 56ویں پوزیشن پر براجمان ہیں۔ دونوں کھلاڑیوں پر پی ایس اے نے کافی انویسٹمنٹ کررکھی ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں میں اسرار احمد، عون عباس اور عباس شوکت جیسے کھلاڑیوں کو مستقبل کیلئے گروم کیا جارہا ہے۔ جس سے کھیل میں نکھار کی امید پیدا ہوئی ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ عالمی رینکنگ میں بہتری کی بھی امید ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں