عدم برداشت، وجوہات اور حل
پچھلے دنوں کہیں پڑھا کہ ماہر عمرانیات کے مطابق ہمارے معاشرے کے نوے فیصد جرائم و بدامنی کی وجہ عدم برداشت ہے۔
صبح سے شام تک گھروں دفاتر میدانوں چوراہوں سڑکوں مساجد بازار اور سوشل میڈیا تک اگر آپ بغور مشاہدہ کریں تو آپکو اکثرئیت میں رواداری کا فقدان اور خود غرضی کی کثرت ملے گی۔لوگو پر تھوڑا غور کریں تو وہاں چہروں پر کرختگی اور لہجوں میں تلخی واضح ملے گی۔تعمیر کے بجائے تخریب ہمارے اندر رچ بس گئی ہے۔
اخلاق کی بنیادیں خندہ پیشانی مسکراہٹیں بردباری میانہ روی ملنساری صبر و تحمل احترام ادب جیسی خوبیاں ہم لوگوں میں ڈھونڈے نہیں ملتیں۔عدل و انصاف جسکا قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہمارا اس سے واسطہ ہی نہیں۔
جب یہ سب اوصاف معاشرے سے ختم ہوں گے تو ان کی جگہ غصہ عدم برداشت شدت پسندی جارحانہ پن اور لاقانونیت پھلے پھولے گی
تضحیک بھونڈے مزاق دل آزاری طعنے تہمت ہمارے معاشرے کا خاصہ بن چکی ہیں
اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے پتھر کا جواب مسکراہٹ برداشت سے دینے کے بجائے اینٹ سے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
ہمیں کوئی ایک سنائے تو اسکو دو سنائے بغیر تو ہمیں چین ہی نہیں ملتا بھلے وہ کوئی اجنبی ہو یا اپنا قریبی ہو۔لوگ معمولی باتوں پر ہوش و حواس کھو دیتے ہیں اور دوسرے کو جان سے مارنے تک آ جاتے ہیں۔
ہم انسانیت کو سامنے رکھنے کے بجائے رنگ نسل مسلک قومیت صوبائیت کو بنیاد بنا کر عدم برداشت کا رویہ اپنا کر معاشرے میں نفرت کی فصل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
عدم برداشت ہماری زندگیوں میں خود غرضی خودپسندی اور غرور کی وجہ سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ہماری نظر میں ہم خود ہمارا نظریہ ہماری سوچ ہماری رائےاور ہمارا عقیدہ ہی برتر اور درست ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ دوسرا شخص وہی سوچے جو ہم سوچ رہے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے؟ہر انسان کی فطرت سوچ سمجھنے کی صلاحیت پسند نا پسند مختلف ہوتی ہے۔ہم ایک ہی وقت میں وکیل گواہ اور منصف بن جاتے ہیں
آئے روز سوشل میڈیا پر کسی بھی سیاسی مزہبی پوسٹ پر لوگ ایک دوسرے کی رائےکو پاوں تلے روند کر اپنے خیالات کی پگ اونچی کرنے کو بےتاب نظر آتے ہیں۔اس کام میں وہ گالم گلوچ اور نفرت آمیز الفاظ استعمال کرنا اپنی زہانت سمجھتے ہیں۔
اگر ہم معاشرتی و اجتماعی سطح پر عدم برداشت کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ دوسروں کو سنیں۔ کسی کے طعن و تشنیع کا جواب مسکراہٹ یا خاموشی سے دیں۔جو خوبیاں آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں ہیں ان کی دوسروں کی ذات میں بھی موجود ہونے پر توقع و یقین کریں
دوسروں کی رائے کا احترام کریں، بحث، اور جارحانہ رویے اختیار کرنے کے بجائے فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔تنقید برائے اصلاح کریں اگر کسی کو قائل کرنا ہے تو غصے کے بجائے دلائل کا سہارا لیں۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں بڑے چھوٹے کی تمیز رکھیں ریاستی قوانین کی پابندی کریں ہر بات کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو جانچیں اور اس کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کریں تو یقیناً آہستہ آہستہ معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو گا۔
ورنہ معاشرے کا یہ بگاڑ ملک قوم معاشرے کے زوال و تباہی کا باعث بنے گا
اپنی رائے کا اظہار کریں