پاکستان بمقابلہ انگلستان تیسرا ٹیسٹ
پاکستان اور انگلستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان سریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ جمعہ کے روز سے ایجز بال ساؤتھمپٹن میں کھیلا جائے گا ابھی تک انگلستان کی کرکٹ ٹیم کو اس سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل ہے اور اس کو یہ سیریز جیتنے کے لیے یہ میچ صرف برابر کرنا ہونا گا جب کہ دوسری طرف پاکستان کی ٹیم کو اس سیریز میں ہار سے بچنے کے لیے اس میچ کو جیتنا بہت ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ایک دفعہ پھر انگلستان میں ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کا مزا چکھنا پڑے گا
اگر پاکستان اور انگلستان کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس ٹیسٹ میچ کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے پاکستان کی دوسرے ٹیسٹ میچ والی ٹیم کو برقرار رکھا جائے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے ابھی تک ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی رہی ہے اور بابر اعظم کے علاوہ دوسرے کھلاڑیوں کا بھی بیٹنگ میں اسکور کرنا اچھی بات ہے مگر پاکستان کی ٹیم کےلیے پریشانی کی پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی اور اسکور نا کرنا ہے اظہر علی اور اسد شفیق کا پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں بہت اہم کردار ہے مگر جب وہ اسکور نہیں کر پاتے تو سارا پریشر نمبر چھ اور سات پر بیٹنگ کرنے والے کھلاڑیوں پر آ جاتا اور اگر وہ بھی کوئی بڑی اننگز نا کھیل سکیں تو پاکستان کی ٹیم ایک بڑا اسکور کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے کیونکہ بدقسمتی سے نمبر آٹھ سے نمبر گیارہ تک پاکستان کی بیٹنگ لائن صرف اور صرف ریت کی دیوار ہے اگر پاکستان کی ٹیم کو انگلستان کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پھر اظہر علی اور اسد شفیق کا اسکور کرنا بہت ضروری ہے بہت سے لوگوں نے اظہر علی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے انہیں کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے میرے خیال میں اس وقت ایسا مطالبہ کرنے کی بجائے اظہر علی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے انہوں نے ماضی میں پاکستان کے لیے بہت اچھی اننگز کھیلی ہیں اور امید یہ ہی کہ وہ بہت جلد اپنی کھوئی ہوئی فارم کا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ویسے بھی اگر ہر سیریز کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی تبدیلی اور اس کی ریٹائرمنٹ کا مطالبہ شروع کر دیا جائے تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کھبی کامیاب نہیں ہو سکے گی
میرے خیال میں اس ٹیسٹ میچ میں فواد عالم کو لازمی موقع دینا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ان کی تقربیا گیارہ سال بعد ٹیسٹ ٹیم میں واپسی ہوئی ہے اگرچہ وہ دوسرے ٹیسٹ میچ میں صرف چار گیندوں کا سامنا ہی کر سکے اور بنا کوئی اسکور بنائے آؤٹ ہو گے مگر ان کو دوبارہ ٹیم سے باہر کرنا زیادتی ہو گی ایک ایسا کھلاڑی جس نے مسلسل گیارہ سال ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو اسے صرف ایک اننگز کی بنیاد پر دوبارہ ٹیم سے باہر نہیں کرنا چاہیے اگر بات کی جائے پاکستان کی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹسمین رضوان احمد کی تو جس طرح سے انہوں نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بیٹنگ کی اور مین آف دی میچ قرار پائے وہ قابل تحسین ہے دوسرے ٹیسٹ میچ میں ایک مشکل وکٹ پر جس طرح سے انہوں پاکستان کی بیٹنگ لائن کو سہارا دیا اس سے انہوں نے اپنے بہت سے ناقدین کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے انہوں نے اپنی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ سے سابق کپتان سرفراز احمد کی ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کی امیدیں کافی کم کر دی ہیں
میرے خیال میں ابھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا اصل مسئلہ ٹیسٹ ٹیم میں ایک اچھا آلراؤنڈر نا ہونا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ میچوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے امید ہے سابق کرکٹر عبدالرزاق کی ہائی پرفامنس سینٹر میں شمولیت سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں کچھ اچھے آلراؤنڈرز کا اضافہ ہو گا اور پاکستان کی ٹیم اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی
پریکٹس میچوں میں اچھی گیند بازی کرنے والے سہیل خان کی بھی اس ٹیسٹ میچ میں شمولیت کا کوئی امکان نہیں اگرچہ انہوں نے اپنے ایک بیان میں باولنگ کوچ وقار یونس کی تعریفوں کے پل بھی باندھے تھے اور پریکٹس میچوں میں اچھی کارکردگی کا ذمہ دار وقار یونس کو قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وقار یونس نے پانچ منٹ میں انہیں گیند کو سوئنگ کرنا سکھا دیا ہے مگر وہ اس کے باوجود پلینگ الیون کا حصہ بنتے نظر نہیں آتے
امید ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم پہلے اور دوسرے ٹیسٹ میچ کی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازی ٹیم میدان میں اتارے گی اور انگلستان کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کرے گی
اپنی رائے کا اظہار کریں