شاہین بنے کوے
سری لنکا کی ٹیم ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے جس کا پہلا مرحلہ خوش اسلوبی سے اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اس مرحلے میں کراچی میں تین ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے جانے تھے مگر پہلا میچ بارش کی نظر ہو گیا جب کہ دوسرے دنوں میچوں میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی اور ایک روزہ سریز دو صفر سے جیت لی
ولڈکپ کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی نئ منیجمنٹ کا پہلا امتحان سری لنکا کے خلاف ہونے والی ایک روزہ اور ٹی 20 سریز ہے جس کے پہلے مرحلے ( ایک روزہ میچوں ) میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کامیاب ہوئی اور سری لنکا کی ٹیم کو دو صفر سے شکست دی ہے جب کہ اسے لاہور میں کھیلے جانے والے پہلے ٹی 20 میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے
سری لنکن کرکٹ بورڈ نے جب اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا تو سری لنکا کے دس اہم کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے سری لنکا کو نسبتا نا تجربے کار ٹیم پاکستان بھیجنا پڑی جس سے شائقین کرکٹ کو بہت مایوس ہوئی اور کچھ لوگوں نے اس ٹیم کو ریلو کٹے بھی قرار دیا
جب کہ دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے نئے منتخب کیے گئے چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق نے اگرچہ تجربہ کار اور مستند بیٹسمین شعیب ملک اور محمد حفیظ کو اپنی پہلی منتخب کردہ ٹیم میں شامل نہیں کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پرانے آزمائے ہوئے اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں منتخب کرنے کو ترجیج دی اور سری لنکا کی اس نا تجربے کار ٹیم کے خلاف کسی نئے اور نوجوان چہرے کو منتخب کرنے سے گریز کیا جس سے ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم یہ مقابلے بڑی آسانی سے جیت جائے گی۔ ٹیم کے اس انتخاب نے پی سی بی کے ان دعووں کا بھی پول کھول دیا جس میں کہا گیا تھا کہ سلیکشن کمیٹی میں ہیڈ کوچ کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کی تمام چھ ٹیموں کے کوچز بھی شامل ہوں گے اور ان کی رپورٹ کے بعد ٹیم کا انتخاب کیا جائے گا مگر سری لنکا کے خلاف ٹیم سلیکشن دیکھ کر لگتا ہے اس بار سلیکشن صرف اور صرف مصباح الحق نے کی ہے اور قائد اعظم ٹرافی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا جبکہ سری لنکا کے خلاف نئے کھلاڑیوں کو موقع نا دیا جانا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ مصباح الحق بطور کوچ اپنی پہلی سریز میں تھوڑے محتاط رہنا چاہتے ہیں مصباح الحق کی ٹیم سلیکشن کو دیکھ کر ایسا لگا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں سلیکشن کمیٹی کے لیے صرف چہرہ تبدیل ہوا ہے باقی کا نظام ویسے ہی ہے۔ سری لنکا کے خلاف سریز نئے کھلاڑیوں ( عمر خان، خوشدل شاہ، راحیل نذیر ) جیسے کھلاڑیوں کو آزمانے کا اچھا موقع تھا اور اس سے مستبقل کے لیے آسانی پیدا ہوتی مگر کیا کریں پیا جس کو چاہے وہ ہی سہاگن۔۔
پاکستان اور سری لنکا کے خلاف 5 اکتوبر کو لاہور میں ہونے والے پہلے ٹی 20 میچ سے پہلے یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم ون ڈے کی طرح ٹی 20 میچز بھی سری لنکا سے آسانی سے جیت جائے گی کیونکہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت ٹی 20 رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ سری لنکا کی ٹیم اس وقت رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر ہے اور سری لنکا کی ٹیم پاکستان کی ٹیم کے مقابلے میں اتنی تجربہ کار بھی نہیں لہذا پاکستان کی کرکٹ ٹیم آسانی سے جیت جائے گی مگر پھر وہ ہوا جس کا پاکستانی کرکٹ شائقین نے سوچا نہیں تھا سری لنکا کی ایک طرح سے بی ٹیم ( عرف عام میں ریلوکٹے) نے ٹی 20 کی نمبر ایک ٹیم کو ہرا دیا اگرچہ پاکستان کی طرف سے محمد حسنین نے ہٹرک کی مگر پاکستانی بیٹنگ نے اس کو کام نا آنےدیا سری لنکا کے نوجوان اور نا تجربہ کھلاڑیوں نے جس طرح سے پاکستانی ٹیم کے چلے ہوئے کارتوسوں کا ایک بار پھر پول کھولا ہے وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ لگتا ہے ابھی تک مصباح الحق پی سی بی کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے طور پر اپنا ہنی مون ٹائم گزار رہے ہیں اور وہ بھی سابقہ چیف سلیکٹر انضمام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جن کھلاڑیوں کو مصباح الحق اپنی کپتانی میں ٹیم کا حصہ بنانے کے خلاف تھے آج ان ہی کھلاڑیوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ اگر مصباح الحق اسی طرح صرف دن گزارو مہم میں لگے رہے تو پاکستان کی کرکٹ ایک قدم آگے اور دس قدم پیچھے جائے گی
سرفراز احمد،فہیم اشرف، آصف علی، عمر اکمل اور احمد شہزاد سے یہ امید لگانا کہ وہ پاکستان کو آیندہ سال ہونے والے ولڈکپ ٹی 20 جتوانے میں اہم کردار ادا کریں بہت مشکل نظر آ رہا ہے سرفراز احمد کی وہ اٹیکنگ کرکٹ کہیں بہت پچھلے چلی گئی ہے اور اب اس کا واپس آنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے جبکہ آصف علی میرے خیال میں صرف اور صرف لیگز کا کھلاڑی ہے قومی سطح پر ان کو مزید مواقع فراہم کرنا ان کھلاڑیوں سے زیادتی ہو گی جو مسلسل عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں
مجھے خدشہ ہے مصباح الحق بھی اپنی ٹیم کا انتخاب کسی خواب وغیرہ کی بنیاد پر نا کرتے ہوں کیا مصباح الحق بطور کوچ اور چیف سلیکٹر اپنی ذمہ داری سے انصاف کر سکیں گے یا نہیں اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا کیونکہ کوچ کے ساتھ بہت سے کھلاڑی اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو دور کروانے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب کوچ اور چیف سلیکٹر ایک شخص ہو تو کیا کھلاڑی ان مشکلات کا اظہار کر سکیں گے یا نہیں اس کے ہمیں مزید انتظار کرنا پڑے گا
اپنی رائے کا اظہار کریں