خان صاحب، سسٹم نہیں کرکٹ تباہی کے ذمہ داروں کو بدلیں
سپورٹس بیوروکریسی کی نظریں اب کرکٹ پر
دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر سمجھنا یا پھر بہتر کو دیکھ کر اپنے آپ کو بہتر بنانا بہت اچھی بات ہے اور بہت کم لوگوں کو آتا ہے مگر کھبی کھبی بنا سوچے سمجھے دوسروں کے نقش قدم پر چل نکلنا بہت نقصان دہ ہوتا ہے اور پھر اس انسان کی مثال دو کشتیوں میں سوار اس مسافر جیسی ہوتی ہے جو صرف اور اپنا نقصان کرواتا ہے یا پھر اس کوئے جیسی جو ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی چال بھی بھول گیا
قیام پاکستان کے بعد جن کھیلوں میں پاکستان نے نام کمایا ان میں کرکٹ، اسنوکر،شکواش، ہاکی، کبڈی، باکسنگ زیادہ اہم رہے وقت گزرتا گیا اور پاکستان ان کھیلوں میں اپنا لوہا منواتا رہا۔پھر نا جانے کسی غیر کی نظر کھا گئ یا اپنوں کی نا اہلیاں وہ پاکستان جس نے سکواش اور ہاکی میں ایک سے بڑھ کر ایک لیجنڈ دیا اب اس کی چمک دمک پاکستان کے لیے کہیں کھو سی گئ ہے مگر ایک کھیل ایسا بھی ہے جو ابھی تک پاکستانی عوام کی دلچسپی کا باعث ہے اور وہ ہے کرکٹ کا کھیل۔۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا کرکٹ کے کھیل کی چمک دمک اضافہ ہوتا جا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ دن بدن نت نئے قوانین کا اطلاق ہو رہاہے اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستانی عوام اور کرکٹ کے کھیل میں بہت جذباتی وابستگی نظر آتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستانی عوام نے اپنے کرکٹ ہیروز کو سر پر بٹھایا ہے مگر دوسری طرف ان کی بری کارکردگی کو آڑے ہاتھوں بھی لیا ہے۔ پاکستان کی ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار، اوول کے ہیرو فضل محمود، لٹل ماسٹر حنیف محمد،
ریورس سوئنگ کے موجد سرفراز احمد، ایشین بڑید مین ظہر عباس،شارجہ کے میدان میں آخری گیند پر چھکا لگا کر ہیرو بننے والے جاوید میانداد اور سب سے بڑھ کر 1992 میں پاکستان کو کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنوانے والے عمران خان ان سب کے علاوہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم وہ تمام ہیرو جہنوں نے پاکستان کی نمائندگی کرکٹ کے کسی نا کسی فارمیٹ میں کی وہ سب ایک نظام کے تحت پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے جس نظام میں ڈپارٹمنٹس کو بہت اہمیت حاصل تھی۔اگرچہ بہت سے کھلاڑی ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پاکستان کی ٹیم میں جگہ نا بنا سکے مگر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں جو بھی کھلاڑی اچھا پرفارم کرتا تھا کوئی نا کوئی ڈپارٹمنٹ اس کو نوکری دے دیتا تھا اس طرح سے ان کے گھر کا چولہا چلتا تھا اور وہ اسی میں خوش ہو جاتے تھے۔ مگر پھر 1992 ولڈکپ وننگ ٹیم کے کپتان عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آتی ہے اور عمران خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن چیف بن جاتے ہیں جو میرے جیسے کرکٹ کا کم علم رکھنے والوں کے لیے اچھی خبر تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ خان صاحب کے اقتدار میں آتے ہی کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور ایسا ہی ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا پچھلا آئن ختم کر دیا جس ڈومیسٹک سسٹم کے تحت پاکستان 1992 کے ورلڈکپ کا چیمپن بنا، ٹی 20 ورلڈکپ جیتا ، ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر 1 ٹیم بنی ڈومیسٹک کے اس ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے بعد نیا آئن لایا گیا ( جس کو لاہور ہائیکورٹ نے مسترد کر دیا ہے) اس نئے آئن میں 16 ریجنل ٹیموں کو ختم کر کے 6 کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ڈپارٹمنٹس کا رول مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ ڈومیسٹک کے اس ڈھانچے کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ڈومیسٹک ڈھانچے کی تقلید کہا گیا۔ اگرچہ دیکھنے میں اور سننے میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ اگر ہم ڈومیسٹک کرکٹ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف 6 یا 7 ٹیمیوں کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کروائے تو ہو سکتا ہے ہم بہت جلد دوبارہ ورلڈکپ جیت جائیں مگر میرے خیال میں عملی طور پر اس چیز کے بہت سے نقصانات ان کھلاڑیوں کے لیے ہیں جو محنتی تو ہیں مگر ان کے پاس سفارش اور رشوت دینے کے پیسے نہیں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی آبادی پاکستان کی آبادی سے بہت کم ہے۔ نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کی آبادی کے لحاظ سے 6 یا 7 ڈومیسٹک کی ٹیمیں ٹھیک ہیں مگر پاکستان کی 22 کڑور کی آبادی ( جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ) کے لحاظ سے بہت کم ہیں۔ میرے خیال خان صاحب کو چاہیے تھا وہ ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو چھیڑنے سے پہلے پاکستان کرکٹ میں ( چاہیے وہ ڈومیسٹک کرکٹ ہو یا کوئی اور طرز کرکٹ ) چھپی ہوئی ان کالی بھیڑوں کو پکڑتے جن کی وجہ سے بہت سے اہل، ہونہار اور محنتی لڑکے ٹیلنٹ ہونے کے باوجود پاکستان کی کرکٹ ٹیم صرف اور صرف رشوت کے پیسے، شفارش یا پھر کسی کا بھانجہ، بھتیجہ یا رشتے دار نا ہونے کی وجہ منتخب نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈپارٹمنٹس کو ختم کرنے سے بےروزگار کھلاڑیوں میں اضافہ ہو گا۔ بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ کی وجہ سے دوسرے ممالک کی لیگز کا حصہ بنتے ہیں اور ان کو انگلستان میں کاونٹی کرکٹ کھیلنے کا موقع ملتا ہے جس سے ان کے گھر کا گزر بسر ہوتا ہے ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد اگر کم ہو گی تو پھر ان کھلاڑیوں کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوں گئیں جو ڈومیسٹک کرکٹ کی بدولت بیرون ممالک میں کرکٹ کھیلتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ دنیا میں کچھ امیر ترین کرکٹ بورڈز میں سے ایک ہے۔جس کی کوشش ہوتی ہے دوسرے ممالک کے بےروزگار لوگوں کو نوکری دی جائے اور ہر پوسٹ پر امپورٹڈ لوگوں کو لایا جائے اور ان ممالک کی بےروزگاری میں کمی کی جائے اور شاید پاکستان کرکٹ بورڈ کی ساری کی ساری کوشش دوسرے ممالک کے لوگوں کو روزگار دینا ہے چاہیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اپنے کھلاڑی بے روزگار ہی کیوں نا ہو جائیں؟
میرے نزدیک پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے مسئلے کا حل ڈپارٹمنٹس کا خاتمہ یا 16ٹیمیوں سے کم کر کے 6 کرنا نہیں بلکہ اس مسئلے کا حل تب تک نہیں ہو سکتا جب تک دہائیوں سے اس سسٹم کو دیمک کی طرح چاٹٹے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا اور غریب کھلاڑیوں کا کیریئر تباہ کرنا ہے۔اگر ان کالی بھیڑوں کو پکڑا جائے اور ان کا احتساب کیا جائے تو پاکستان کی کرکٹ میں خود بخود بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ دوسری صورت میں اگر ان کالی بھیڑوں کو نا پکڑا گیا تو ان کے لیے یہ سسٹم سونے کی چڑیا ثابت ہو گا۔اگر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ سے ڈپارٹمنٹس کو ختم کیا گیا تو اس کا اثر کرکٹ کے ساتھ ساتھ دوسری کھیلوں پر بھی لازم پڑے گا جو پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانون میں اگر چیرمین کرکٹ بورڈ کی حد عمر زیادہ سے زیادہ 60 سال مقرر کر دی جائے تو اس سے بھی کافی حد تک تبدیلی آ سکتی ہے کیونکہ جس عمر میں لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں اس عمر میں کچھ لوگوں کو چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ لگایا جاتا ہے جو نا تو خود بنا سہارے کے چل سکتے ہیں اور نا ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کو امپورٹڈ لوگوں کے بغیر چلا سکتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ نے ہم کو ایک سے بڑھ کر ایک لیجنڈ دیا ہے مگر افسوس پاکستان کرکٹ بورڈ نے وقت پر نا تو ان سے کام لیا اور نا ہی ان کی قدر کی۔ اگر ابھی بھی اپنوں کی قدر نا کی گی اور محنتی لڑکوں کو ان کا حق نا دیا گیا تو کوے سے ہنس کی چال چلوانا ممکن نہیں ۔
اللہ تعالی آپ سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
اپنی رائے کا اظہار کریں