راشد لطیف نہیں تو کون؟
کرکٹ ولڈکپ 2019 کا میلہ اختتام پذیر ہوئے دو سے زیادہ ہفتے گزر چکے ہیں اور فی الحال
پاکستان کی ٹیم کے کھلاڑی مستقبل قریب میں کوئی سریز نا ہونے کی وجہ سے سکون کا سانس لے رہے ہیں ( پاکستان اپنی اگلی سریز ستمبر کے آخر میں سری لنکا کے خلاف کھیلے گا ) پاکستان کی ٹیم کا بھی ولڈکپ میں سفر ختم ہوئے تقریبا ایک ماہ ہونے کو آیا ہے اور اس ایک ماہ میں کافی چیزیں عوام کے سامنے آئی ہیں پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار کپتان اور کھلاڑیوں سے مختلف شہروں میں الگ الگ پریس کانفرنسیں کروائی گئیں کچھ لوگوں نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے اپنا سفر جاری نا رکھنے میں ہی بہتری سمجھی اور پاکستان کرکٹ بورڈ سے اپنی راہیں جدا کر لیں جن میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین انضمام الحق سر فہرست ہیں لاہور میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس انضمام الحق نے ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا اور ٹیم کی کارکردگی پر کسی بھی قسم کی شرمندگی یا معذرت کرنے سے انکار کیااور بطور چیف سلیکٹر مزید کام کرنے سے معذرت کی اگر دیکھا جائے تو انضمام الحق مہینے کے بارہ لاکھ روپے پاکستان کرکٹ بورڈ سے تنخواہ لے رہے تھے اس کے علاوہ ہر دورے میں ٹیم کے ساتھ ساتھ بھی ہوتے تھے۔ اپنے بھتیجے کو بھی ٹیم شامل کروانے میں کامیاب ہو گے تھے اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ان کے نزدیک تسلی بخش تھی تو انہوں نے یہ نوکری چھوڑی کیوں ؟ جبکہ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرکٹ ان کی روزی روٹی ہے۔
امید کی جا رہی دو اگست کو ہونے والی کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ میں نئے چیف سلیکٹر اور سلیکشن کمیٹی کا اعلان کیا جائے گا اس ضمن میں سابق کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین راشد لطیف، عامر سہیل، محسن حسن خان، سابق کپتان مصباح الحق، عبدالقادر، سابق کپتان معین خان اور شعیب اختر کے نام گردش کر رہے ہیں۔میرے خیال میں پاکستان کی ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کا چیرمین اور رکن ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کو بہت غور سے دیکھیں اے سی والے ٹھنڈے کمرے میں ٹیم کی سلیکشن کرنے کی بجائے میدان میں جا کھلاڑیوں کی پرفارمنس کو پرکھنے کے بعد ٹیم منتخب کرنے کو ترجیج دیں
اور اس کے لیے میرے خیال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین کے لیے راشد لطیف سے بہتر کوئی اور انسان نہیں راشد لطیف ان چند لوگوں میں سے ہیں جو بطور کھلاڑی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کے باوجود کسی نا کسی طرح کرکٹ سے جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ منسلک نا ہونے کے باوجود انہوں نے پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کچھ اچھے نوجوان کھلاڑیوں کا کھوج لگا کر دیا ہے جس میں کراچی کنگز کے لیے پاکستان سپر لیگ کے چوتھے سیزن میں حصہ رہنے والے عمر خان بھی شامل ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوشش ہو گی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ اس شخص کو بنایا جائے جو بڑے نام کے ساتھ ساتھ وقت آنے پر ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا بھی ہو اور راشد لطیف اس لحاظ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے معیار پر پورا اترتے دیکھائی نہیں دیتے کیونکہ راشد لطیف ہمیشہ سے اپنی صاف گوئی کی وجہ سے پہچانے گئے ہیں اور ماضی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا چیف سلیکٹر بننے سے معذرت کر چکے ہیں۔اگر پاکستان کرکٹ بورڈ راشد لطیف کو پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بناتے ہیں تو یقینا راشد لطیف ان باتوں پر کبھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جن پر پر ماضی میں کچھ لوگ تیار ہو جاتے تھے
راشد لطیف اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین نہیں بنتے ( زیادہ آثار اسی بات کے نظر آتے ہیں ) تو یہ قرعہ فال ماضی میں چیف سلیکٹر کی ذمہ داریاں نبھانے
والے عامر سہیل یا معین خان کے نام نکل سکتا ہے۔معین خان بھی بطور کھلاڑی ریٹائرمنٹ لینے کے بعد کرکٹ سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ماضی میں منسلک بھی رہے ہیں مگر جس طرح سے انہوں نے پاکستان سپر لیگ میں اپنے بیٹے کی سلیکشن کروائی جب کہ اس سے کافی اچھے اور ہونہار کھلاڑی موجود تھے یہ بات بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہو گی۔ اگر یہ قرعہ فال مصباح الحق کے نام نکلا تو دیکھنا پڑے گا کیا یہ ابھی بھی ڈومیسٹک کرکٹ کی ایک خاص ٹیم کے کھلاڑیوں کو نوازنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ بطور کپتان کرتے رہے ہیں یا پھر حقیقی معنوں میں ان کھلاڑیوں کو سامنے لے کر آتے ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
نئی آنے والی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ کوئی بھی اور اس میں ارکان جو بھی ہو ان کی کوشش کرنی چاہئے پاکستان کرکٹ ٹیم کو 30 سے 40 ایسے کھلاڑیوں کا پول دے جو کسی وقت بھی پاکستان کی طرف سے کھیلنے کے لیے تیار ہوں اور جو لمبے عرصے تک پاکستان کی نمائندگی کرنے کے اہل ہوں اس کے ساتھ ساتھ ان کھلاڑیوں کو بھی لازم ان کا حق دلوایا جائے جو کسی کے بھتیجے یا بھانجے نا ہونے کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں کیے جاتے ۔پاکستان کرکٹ بورڈ کو صرف بڑے ناموں کی بجائے ان لوگوں کوترجیج دینی ہو گی جو حقیقی معنوں میں پاکستان کی ٹیم کو محنتی اور اچھے کھلاڑی دیے سکیں اور اس کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی انا کی قربانی بھی دینی پڑے گی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین کے ساتھ ساتھ سلیکشن کمیٹی میں ان ارکان کو شامل کرنا پڑے گا جو سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین سے اختلاف رائے کا اظہار بھی کر سکیں ورنہ دوسری صورت میں سلیکشن کمیٹی تو ہو گی مگر اس کی حثیت ایک ڈمی سے زیادہ نہیں ہو گی۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ان کھلاڑیوں کو ترجیج دینی ہو گی جو لمبے عرصے تک پاکستان کی نمائندگی کر سکیں اور صرف ایک سریز کو مدنظر رکھتے ہوئے سلیکشن کے عمل کو نظر انداز کرنا ہو گا اللہ آپ سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اپنی رائے کا اظہار کریں