مینار پاکستان اور مکی آرتھر
صاحب بھوک و افلاس سے مارے ایک شخص کی جب نہ بن پائی تو اس نے اعلان کروا دیا کہ کل شام پانچ بجے مینار پاکستان اٹھاوں گا، یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، لاہور اور اس کے مضافات سے ہزاروں لوگ چار بجے سے پہلے مینار پاکستان کے پاس پہنچ گئے ،،، تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی اب ہر شخص کی نظر سوئی پر تھی کہ کب پانچ بجیں اور اس کا شخص کا شہرہ آفاق کارنامہ دیکھیں ،،، پونے پانچ بجے اس شخص نے مینار پاکستان کے اردگرد تیز تیز چلنا شروع ہوکردیا، اسی طرح حاضرین کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوتی گئیں، پانچ بج گئے تمام نظرین اس شخص اور مینار پاکستان پر ٹک گئیں، مگر صاحب کے چکر تھے کہ تیز ہوتے گئے،، ساڑھے پانچ ہوگئے مگر چکروں کی تیزی تو دیکھی جا رہی تھی عملی مظاہرہ کب ہوگا یہ ہر کسی کو لاحق فکر تھی، آخر چھ بج گئے ،، حاضرین کی بے چینی غصے میں تبدیل ہونے لگی اور ایک لاہوری اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور چیخ کر کہا
اوئے چک وی مینار پاکستان
تو بھوک و افلاس کا مارا وہ شخص بیچارگی سے بولا
یہ اکیلے بندہ کا کام نہیں ، آپ سب ہاتھ ڈلواو گے تو ممکن ہوگا نہ
اس پر تمام حاضرین مخصوص لاہور گالیاں دیتے ہوئے گھروں کو سدھار گئے
ورلڈکپ میں شرکت میں روانگی سے قبل قومی کرکٹ ٹیم کے مہنگے ترین کوچ مکی آرتھر نے بھی کچھ اس شخص جیسا بیان دے کر تمام پاکستانیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ جیت کی گارنٹی نہیں دے سکتا، میرا پہلا ہدف سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنا ہے،،،، میگا ایونٹ میں شرکت سے پہلے اتنا کمزور بیان ٹیم کے حوصلے پست تو کرسکتا ہے بلند نہیں ،، کیونکہ بڑے ایونٹ میں شرکت سے پہلے کپتان اور کوچ کی جانب سے کمزور ٹیم پر بھی بلند و بانگ دعوی سننے میں آتے ہیں تاکہ چوہا بھی شیر ہوجائے
یہ ذہن میں رکھیں کہ 92 ورلڈکپ کی فاتح ٹیم ایک کمزور ٹیم تھی جسکا ذکر عمران خان نے حال ہی میں قومی ٹیم سے ملاقات میں کیا مگر وزیر اعظم کے مطابق ہم نے ورلڈکپ جزبے اور لگن سے جیتا، آپ کو یاد ہوگا کہ لوگ اس وقت ہنستے تھے کہ جب 92 ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم، میگا ایونٹ سے تقریبا باہر چکی تھی مگر عمران خان کی جانب سے ایک ہی بیان آتا تھا کہ ہم ورلڈکپ جیت کر وطن واپس آئیں گے اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بلند جزبوں کی قدرت نے بھرپور مدد کی اور پاکستان معجزانہ طور پر فائنل میں پہنچا اور بلند جزبوں کی ٹیم نے دنیائے کرکٹ کی مضبوط ترین ٹیم کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرلیا
کون نہیں جانتا کہ مکی آرتھر اتنے ہی مضبوط کوچ ہیں جتنے با اختیار کپتان عمران خان تھے اور ان کے ہمراہ پاکستانی تارِیخ کا مہنگا ترین سٹاف ہے حتکہ ٹیم کا مالشیا بھی ویسٹ انڈیز سے منگوا کر ملنگ علی کو بوٹی پلا دی گئی ہے، اگر غور سے دیکھیں تو 92 ورلڈکپ کی طرح موجودہ ٹیم بھی نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور ایسے میں دلیرانہ کی بجائے محتاط بیان سے ثابت ہوا کہ قومی ٹیم کا درد اور جزبہ ایک پاکستانی ہی سمجھ سکتا ہے نہ کہ غیر ملکی کوچ، اوپر سے موصوف نے ابھی سے ورلڈکپ کے بعد بھی کوچنگ جاری رکھنے کی استدعا کردی ہے جبکہ پی سی بی سے لمبی چوڑی گرانٹ لینے والے زیرو نتائج کے حامل گرانٹ فلاور نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں
شائقین کرکٹ میں سے کون نہیں جانتا کہ ہیڈکوچ جس خامی پر آسٹریلین بورڈ سے نکالے گئے تھے، پی سی بی میں وہ ان کی خوبی نکلی اور انہوں نے چن چن کر سینیئر کھلاڑیوں کو اپنی نفرت کے بھینٹ چڑھا دیا، کبھی چیمپیئنز ٹرافی سے عمر اکمل کوان فٹ قرار دیکر واپس بھیج دیا تو کبھی عماد وسیم کو ان فٹ ہونے کے باوجود بھی ورلڈکپ کا حصہ بنا لیا، پروفیشنل کوچ کو کھلاڑی کے لائف سٹائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا اگر وہ ڈسپلن کا پابند اور کارکردگی کا حامل ہوتا ہے، مگر موصوف حسب روایت سینیئر کھلاڑیوں سے چڑھ ہوتی ہے کیونکہ وہ کوچ سے ذیادہ کرکٹ سمجھتے بھی ہیں اور کچھ نقاط پر No Sir کہنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں، یہ تاریخ بتائے گی کہ مصباح الحق،یونس خان،شاہد آفریدی،احمد شہزاد،عمر اکمل ، وکٹ کیپر محمد رضوان، محمد عرفان اور وہاب ریاض پہ کرکٹ کے دروازے کس نے بند کروائے اور اس سلسلے میں کس کا بھرپور ساتھ مکی آرتھر کو حاصل رہا
خیر قومی ٹیم انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز ، ٹی تونٹی اور میگا ایونٹ ورلڈکپ کھیلنے کے لیے انگلینڈ پہنچ چکی ہے اور جلد ہی پریکٹس سیشن شروع کر رہی ہے، اب پوری پاکستانی قوم کی نظریں قومی ٹیم اور ورلڈکپ پر مرکوز ہوچکی ہیں اور مکی آرتھر کے چکر بھی شروع ہوچکے ہیں اور ہر کوئی قومی ٹیم کے لیے دعاگو ہوگا اور دعاوں میں اثر اس لیے بھی آ سکتا ہے پاکستان کی طرح یہ ورلڈکپ بھی ماہ رمضان میں کھیلا جائے گا جب گنہگار سے گنہگار بھی خدا کے حضور سر بسجود ہوتا ہے،،، پوری ٹیم کو توقع ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی کی طرح پاکستان 92 جیسی کارکردگی دکھائے گی اور ٹرافی پاکستان لے کر آئے گی، شائقین کرکٹ کے دلوں دھرکنیں تیز ہوتی جا رہی ہیں اور ان کو پوری امید ہے کہ پاکستان فتح یاب ہوگا، خدانخواستہ پاکستان ناکام رہا اور بنا ٹرافی کے وطن واپس لوٹا تو مکی آرتھر کے پاس بڑا اچھا بیان ہوگا کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ذیادہ امیدیں نہ لگائیں ہماری پہلی منزل سیمی فائنل تک پہنچنا ہے
اور اگر پاکستان سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکا تو ؟
مکی آرتھر کا بیان مینار پاکستان اٹھانے کا دعوی کرنے والے شخص کی طرح ہوگا
کہ
یہ میرے اکیلے کا کام نہیں تھا ،،، کھلاڑیوں نے ہاتھ ہی نہیں ڈلوایا
اپنی رائے کا اظہار کریں