مولا جٹ ، کرکٹ گراونڈز میں کامیاب نمائش جاری
سال نو 2019 کو شروع ہوئےتقربیا دو ہفتے ہونے کو آئےہیں اور بہت سی چیزوں میں اور حالات میں تبدیلی آ چکی ہےبہت سے لوگوں نے اس سال کے لیے اپنے نئے منصوبے بنائیں ہوں گے تا کہ وہ مزید کامیابیاں حاصل کر سکیں اور بہت سے لوگوں نے اپنے پچھلے سال کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا سوچا ہو گا۔
جس انداز سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ میں سال نو کا آغاز کیا ہے اس سے ایسا لگا پاکستانی ٹیم اپنی کارکردگی کو وہیں سے شروع کرنا چاہتی تھی جس جگہ انہوں نے گزشتہ سال اختتام کیا تھا۔ پاکستان ٹیم کو اس بات پر لازم داد دینی چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی کے تسلسل کو آگے لے کر چل رہے ہیں اب چاہے وہ ہارنے کا تسلسل ہی کیوں نا ہو۔
کسی بھی ٹیم کی کامیابی میں کپتان اور اس کی کارکردگی کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اور کپتان کی اچھی یا بری کارکردگی ٹیم پر بہت اثرانداز ہوتی ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم اور خاص کر کپتان سرفراز احمد میں بہت سی بری باتیں ہو گی مگر ایک بہت ہی اچھی بات ہے کہ وہ یاری دوستی بہت اچھے طریقے سے نبھاتے ہیں۔سرفراز احمد جس انداز سے محنت کرنے کے بعد ٹیم میں آئے تھے ہر کوئی ان کا دیوانہ ہو گیا تھا مگر پھر وہ ہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے سرفراز احمد کو کپتان بنا دیا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی دن بدن کم ہوتی گئی اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ صرف کپتان ہونے کی وجہ سے ٹیم کا حصہ ہیں اور کپتان بھی ایسے کہ ان جیسا کپتان شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کوئی آیا ہو جس کی زبان اس کے بلے سے زیادہ چلتی ہو۔
ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ دوستوں اور رشتہ داروں کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے پاکستانی ٹیم کو دیکھ کر لگتا ہے انہوں نے اس بات کو بہت سنجیدہ لیا ہے اور صرف یاری دوستی اور رشتہ داری نبھائی جا رہی ہے ۔ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی اس وقت اپنی کارکردگی کی بجائے سیر سپاٹوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں یہ پل دوبارہ نہیں آنے لہذا زندگی سے جتنا لطف اندوز ہو سکتے ہیں ہو جائیں کارکردگی کا کیا ہے ہم لوگوں کی ٹیم میں جگہ پکی ہے کیوں کہ ہم اپنے کوچ کے سب سے اچھے کھلاڑی جو ہیں۔
میرے خیال میں پاکستانی کرکٹ ٹیم میں اس وقت جو شخص حقیقت میں اپنی نوکری کا مزا لے رہا ہے وہ بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور ہیں جو جب سے پاکستانی ٹیم کے ساتھ وابستہ ہوئے ہیں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہر جگہ دورے پر موجود تو ہوتے ہیں مگر پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ میں کوئی رتی بھر کا فرق پیدا نہیں کر سکے اور پاکستان کرکٹ بورڈ بھی لگتا ہے ان کی کارکردگی کی طرف س آنکھیں بند کر کے سو رہا ہے اگر کسی کھلاڑی کو بیٹنگ میں کوئی مسئلہ آتا ہے تو اس مسئلے کو دور کروانے کی بجائے اس کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو بیٹنگ کوچ کو بھاری بھرکم تنخواہ دینے کا فائدہ؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کوچ مکی آرتھر کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ وہ کرکٹ ٹیم کے کوچ کم اور کسی فلم کے ولن زیادہ ہیں میری نظر میں مکی آرتھر ایک اچھے کوچ ہوں یا نا ہوں مگر ایک اچھے اداکار لازمی ہیں جو میچ کی ہر گیند کے ساتھ اپنی اداکاری دکھاتے ہیں کاش جتنی اداکاری مکی آرتھر میچ کے دوران کرتے ہیں اس سے پہلے اتنا دھیان ٹیم کی کارکردگی پر دیں تو ان کو میچ کے دوران اتنی اداکاری کا مظاہرہ نا کرنا پڑے۔
جب آپ کی بیٹنگ فارم اچھی نا چل رہی ہو اور آپ بیٹنگ میں مسلسل فیل ہو رہے ہوں تو آپ کے ناقدین آپ پر ہر طرف سے تنقید کے تیر
برساتے ہیں اور سونے پر سہاگہ اگر آپ کپتان ہوں تو پھر لوگوں کو آپ کی وہی باتیں بری لگتی ہیں جو آپ کی اچھی کارکردگی کے دنوں میں اچھی لگتی تھیں کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا آج کل سرفراز احمد کو بھی ہے
شان مسعود نے دو ٹیسٹ میچز میں اچھی کارکردگی کیا دکھائی بہت سے لوگوں نے اس ٹیم کا کپتان بنانے کی بات چھیڑ دی ہے ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا یہ ہمیشہ سے المیہ رہا ہے جس کھلاڑی نے تھوڑی کارکردگی دکھائی اس کا دماغ یا تو خود آسمان پر پہنچ جاتا ہے یا پھر ہم لوگ اس کی تعریفوں کے اتنے پل باندھ دیتے ہیں کہ وہ خود کو سب سے اعلی سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور رہتی کسر اس کو مستقبل کا کپتان کہہ کر پوری کر دی جاتی ہے جو کہ اس کی کارکردگی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا ہے امید ہے کہ شان مسعود ان باتوں پر دھیان نہیں دیں گے اور اپنی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھیں گے
باقی کپتان سرفراز احمد اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے جو فلم مولا جٹ چلا رکھی ہے ،، اس کا تعین وقت کرے گا کہ یہ فلم پر حقائق پر مبنی تھی یا تماشائیوں کی آنکھوں میں مٹی جھونکنے کا ایک ڈرامہ ،،، کیونکہ قومی کرکٹ ٹیم جس بحران سے دوچار ہے اس کا سارا کریڈٹ ماضی میں مکی آرتھر اور سرفراز احمد کی مثالی دوستی تھی، ٹانگ کس کی کٹتی ہے اور کب کٹتی ہے اس کے لیے فلم کا مسلسل دیکھتے رہنا ضروری ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں