“پاکستان سپر لیگ تحفظات اور خدشات “
جیسے جیسے پاکستان سپر لیگ کا سفر آگے بڑھتا جا رہا ہے اس کے قافلے میں شامل ہونے والے کھلاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے سوائے بھارت کے باقی تمام ممالک کے کھلاڑیوں نے اس دفعہ پاکستان سپر لیگ کے قافلے میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے جس سے پاکستان سپر لیگ کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
پی سی بی نے پاکستان سپر لیگ کے اگلے ایڈیشن کے لیے کھلاڑیوں کے چناؤ کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق یہ تقریب 20 نومبر کو منعقد ہو گی اور اس کے لیے تقریبا تمام ٹیمیں اپنی اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دے چکیں ہیں اور اس سلسلے میں دوسری ٹیموں کےساتھ کھلاڑیوں کے تبادلے اور جن کھلاڑیوں کو ٹیم میں برقرار رکھنےکا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ابھی تک بہت سی ٹیموں نے اس کے لیے کافی حیران کن فیصلےبھی کیے ہیں ۔ پشاور زلمی نے تجربہ کار بیٹسمین محمد حفیظ کو ٹیم میں شامل رکھنے کی بجائے وہاب ریاض کو ٹیم میں برقرار رکھا جو کہ وہاب ریاض کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کافی حیران کن فیصلہ ہے۔ اب تک پاکستان سپر لیگ میں ناکامیوں کے جھنڈے گاڑنے والی لاھور قلندرز کی ٹیم نے حیران کن طور پر ٹی 20 کے تجربہ کار کھلاڑی سنیل نارائن کا تبادلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے کیا ہے جو میرے نزدیک ان کے لیے کافی نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پچھلے سال ٹیم کے کپتان رہنے والے بڑیندن مکیلم کو بھی اپنی ٹیم میں برقرار نہیں رکھا۔ میرے نزدیک کھلاڑیوں کے چناؤ کے حساب سے پاکستان سپر لیگ کا اب تک کا سب سے بڑا فیصلہ کراچی کنگز کا شاہد آفریدی کو ٹیم میں برقرار نا رکھنے کا فیصلہ ہے۔بہت سے لوگوں کی دلوں کی دھڑکن سمجھے جانے والے اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بوم بوم شاہد آفریدی کو کون سی ٹیم اپنی پالیسی کا حصہ بناتی ہے اس بات کا فیصلہ اب 20 نومبر کو منعقد ہونے والی کھلاڑیوں کے چناؤ کی تقریب میں ہو گا۔اگر ہم پچھلے سال کے کھلاڑیوں کے چناؤ کو مدنظر رکھیں تو ہم کو ایک بات پتہ چلتی ہے کہ بہت سے کھلاڑیوں کو صرف اور صرف ذاتی پسند کی وجہ سے پاکستان سپر لیگ کا حصہ بنایا گیا اور بہت سے ایسے کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا گیا جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی ۔ اس دفعہ ذاتی اثر و رسوخ کا استعمال کھلاڑیوں کے چناؤ پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
آج جبکہ کرکٹ کا کھیل بہت چکا چوند ہو چکا ہے اور تقربیا ہر ملک کسی نہ کسی طریقے اپنے کھیل میں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے پاکستان کی کرکٹ کے لئے اور خاص طور پر نئےآنے والے کھلاڑیوں کے لیے پاکستان سپر لیگ کی طرز کے مقابلے بہت اہمیت کے حامل ہیں. وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے کھیل نے بھی بہت جدت اختیار کر لی ہے اور اب یہ کھیل کرکٹ کم اور پیسہ پھینک تماشا دیکھ زیادہ بنتا جا رہا ہے. حالات کی ستم ظریفی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی اس لیگ کے زیادہ تر میچز دیار غیر میں کروانے پر رہے ہیں اور پاکستان میں رہنے والے لوگوں ابھی بھی پاکستان سپر لیگ کے تمام میچز پاکستان کے میدانوںمیں دیکھنے کے لئے انتظار کرنا ہو گا
پاکستان سپر لیگ کے اس ایڈیشن کا کامیاب بنانے کے لیے پی سی بی کو پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اور بہت سی چیزوں دیکھنا پڑے گا.پچھلے سال پاکستان سپر لیگ کا حصہ بننے والی ملتان سلطانز کی ٹیم کا پاکستان کرکٹ بورڈ نے معاہدہ ختم کر دیا ہے اب چھٹی ٹیم کو کون خریدتا ہے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس کے علاوہ جو بات سب سے اہم ہے وہ ہے میچ فکسنگ،جیسا کہ ماضی میں بہت سے کھلاڑی میچ فکسنگ یا سپاٹ فکسنگ میں ملوث رہے ہیں اس لیے پی سی بی کو اس چیز پر خصوصی توجہ دینا پڑے گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان سپر لیگ اس چیز سے پاک ہو. دوسری اہم بات کھلاڑیوں کا انتخاب. اس سلسلے میں پی سی بی کو صحیح محنوں میں میرٹ پر عمل درآمد کرنا پڑے گا ان کھلاڑی کو آگے لانا پڑے گا جو اس کے اصل حق دار ہیں اور پرچی پر کھلاڑیوں کے انتخاب کی روایت کو ختم کرنا پڑے گا. (جو فی االوقت ممکن نظر نہیں آتا)
پاکستان سپر لیگ کا اصل مقصد آنے والے وقت کے لیے اچھے کھلاڑی تیار کرنا ہونا چاہیے نہ کہ صرف پیسہ کمانا. پاکستان سپر لیگ میں زیادہ توجہ نوجوان کھلاڑیوں پر دینی چاہیے اور ان تمام کھلاڑیوں کو اس کا حصہ بنایا جائے جنہوں نے ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے. میرٹ کا ہر صورت دھیان رکھا جائے. ورنہ دوسری صورت میں اس لیگ کی حیثیت اک تماشے سے زیادہ نہ ہو گی اور اس سلسلے میں ٹیموں کی منجمنٹ کو اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر کارکردگی کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہیے۔
پاکستان سپر لیگ کی منجمنٹ کے لیے سب سے بڑا چیلنج غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان کھیلنے کے آمادہ کرنا ہے پچھلے سال
کچھ غیر ملکی کھلاڑی ایسے بھی تھے جو
پاکستان سپر لیگ کے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے میچز میں ٹیموں کا حصہ تھے مگر پاکستان میں کھیلے جانے والے میچوں میں ٹیم کا حصہ نہیں تھے اور انہوں نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ کی منجمنٹ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ پاکستان سپر لیگ میں صرف وہ ہی غیر ملکی کھلاڑی شامل ہوں جو پاکستان میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں بصورت دیگر ان کھلاڑیوں کو ٹیم کا حصہ نا بنایا جائے جو پاکستان میں کھیلنےکے لیے تیار نہیں۔
اگر آج ہم دس سال پہلے کی کرکٹ پر نظر دوڑائیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ آج کی کرکٹ اود دس پندرہ سال پہلے کی کرکٹ میں بہت فرق آ چکا ہے اور اس دوران ہر اس ملک نے جس میں کرکٹ کھیلی جاتی یے انہوں نے مختلف طریقوں کے ساتھ اس کھیل کے بدلتے ہوئے رنگوں میں اپنے آپ کو رنگنے کی کوشش کی ہے.
مگر دوسری طرف اگر ہم پاکستان کرکٹ کی بات کریں تو ہم کو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اس کھیل پر صرف باتوں کی حد تک توجہ تو لازمی دی لیکن عملی طور پر کچھ خاص کام نہیں کیا.اور بجائے کھیل کی بہتری پر توجہ دینے کے پی سی بی کے ارباب اختیار پی سی بی میں چیئرمین چئیرمین کھیلتے رہے. اور اگر کھبی کسی نے بھول کر ان سے کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس کے بارے میں کوئی سوال پوچھ لیا تو اس کو جواب ملا کہ ہماری ٹیم کی یہ حالت ملک میں انٹرنیشنل ٹیموں کے نہ آنے کی وجہ سے ہے.
یہ بات سچ ہے کہ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی طرز پر کرکٹ کے زیادہ مقابلے نہیں ہوئے جس کی وجہ سےپاکستان کرکٹ کا کافی نقصان ہوا ہے مگر اس بات کو سو فیصد پاکستان کی ٹیم کی کارکردگی سے جوڑا نہیں جا سکتا. بلکہ اس کی وجہ ڈومیسٹک کرکٹ کا ناقص ڈھانچہ ہے اور میرے خیال میں اس کے ذمےدار پی سی بی میں بیٹھے ہوئے وہ لوگ ہیں جو وقت کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے. اگر پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے اپنے ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے پر کوئی توجہ دی ہوتی تو حالات آج سے بالکل مختلف ہوتے . مگر اس کے لیے وہ لوگ چاہیے جو تھوڑی محنت کر سکیں مگر پی سی بی میں موجود لوگوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ان کے یہ دن اللہ اللہ کرنے کے ہیں محنت کرنے کے نہیں. کیونکہ دوسرے ممالک کے کرکٹ بورڈز جس عمر میں لوگوں کو ملازمت سے رخصت کرتے ہیں پی سی بی میں اس وقت لوگوں کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے. آج کے دور میں ان سب ارباب اختیار کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اگر وہ وقت کے ساتھ نہیں چلے تو ہو سکتا ہے ہم مستقبل قریب میں ولڈکپ اور آئی سی سی کے دوسرے بڑے ٹورنامنٹ نہ کھیل سکیں. جب دوسرے ممالک اپنی اپنی پرائیویٹ لیگز کروانے میں لگے ہوئے تھے پی سی بی کے ارباب اختیار اس وقت پی سی بی میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں مصروف تھے. اگر دیکھا جائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف دو چار لوگ ہی ایسے ہیں جو پی سی بی میں کام کرنے کے اہل ہیں اس کے علاوہ کسی اور کو پاکستان میں کرکٹ کی سمجھ بوجھ ہی نہیں کیونکہ کچھ بھی ہو جائے وہ لوگ کسی نہ کسی طرح پی سی بی کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں.حالانکہ اب ان کی یہ عمر آرام کرنے کی ہے. بات ہو رہی تھی پاکستان سپر لیگ کی مگر شاید کہیں اور ہی نکل گئی.
میرے خیال میں پاکستان کرکٹ بورڈ اگر پاکستان سپر لیگ کو ہر سال درست طور پر منعقد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس میں سے بہت سے ایسے کھلاڑی ہم کو مل سکتے ہیں جو مستقبل میں پاکستان کی نمائندگی کر سکیں. مگر اس کے لیے پھر وہ ہی بات خلوص نیت درکار ہو گی.
اپنی رائے کا اظہار کریں