لارڈز ،،، پرشکوہ اور عظمتوں سے مزین گراونڈ
لارڈز کرکٹ گراونڈ کا نام سنتے ہی کرکٹ کی عظمت ذہن میں آتی ہے کیونکہ اسے ہاوس آف کرکٹ بھی کہا جاتا ہے اور آئی سی سی کے قیام سے پہلے لارڈز کو ہی کرکٹ امور کے لیے استعمال کیا جاتا تھا
اگر آپ کرکٹ روز کے کتابچے کو پڑھنے جاتے ہیں وہاں سب سے پہلے جو آپ کو پڑھنے کو ملے گا کہ کرکٹ لارڈز اور جنٹیلمین کا کھیل ہے،،، مگر کرکٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ نہ تو یہ لارڈز کا کھیل رہا اور نہ ہی شریف لوگوں کا ،،، اور آئے دن کرکٹ میں ایسے ناپسندیدہ واقعات ہوتے ہیں کہ جن سے خود کرکٹ شرمندگی محسوس کرتی ہے اور پیسے کی بہتات نے کرکٹ کی پاکیزہ روایات کو وہ داغدار کیا ہے کہ اب شریف لوگ اپنے بچوں کو اس کھیل کی جانب آنے ہی نہیں دیتے اور لارڈز نے دیگر کھیلوں کا رخ کر لیا
خیر 1784 میں قائم ہونے اس گراونڈ نے دنیائے کرکٹ کے ہر بڑے کھلاڑی کو کھیلتے دیکھا ہے اور یہ دنیا کا واحد گراونڈ ہے جہاں کھلاڑی کھیلنے کو بھی اعزاز سمجھتے ہیں،،، مگر شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2012 اولمپکس میں لارڈز کو تیر اندازی کے مقابلوں کے انعقاد کے لیے بھی استعمال کیا گیا
2010 میں میچ فکسنگ واقعہ میں بلا شبہ پاکستان تین کھلاڑیوں نے اس کی عظمتوں کو داغدار کیا اور جسکی شرمندگی ابھی تک محسوس کی جاتی ہے مگر یہ بھی کسی دلچسپی سے کم نہیں کہ اس گراونڈ میں کسی پاکستانی نے کوئی ریکارڈ ساز کارنام تو سرانجام نہیں دیا مگر یہاں بننے والے ریکارڈز پاکستانی کھلاڑیوں اور ٹیم نے اچھا خاصا کردار ادا کیا ہے،،
جی ہاں 2010 ٹیسٹ میں یہاں سٹیورٹ اور ٹروٹ نے آٹھویں وکٹ کی شراکت میں 332 رنز داغ کر ایک اچھوتا ریکارڈ قائم کیا تھا اور پاکستانی باولرز کی خوب دھنائی کی تھی
لارڈز میں سونگ باولرز ہمیشہ سے کامیابیاں سمیٹتے رہے ہیں اور سونگ باولنگ پاکستانی بلے بازوں کے لیے ہمیشہ سے خاصے تکلیف دہ صورت حال رہی ہے،، 1974 میں انگلینڈ ڈیرک ووڈ نے 43 رنز کے عوض 8 پاکستانیوں کا شکار کیا تو شہرہ آفاق آل راونڈر ایان بوتھم نے 1978 میں محض 34 رنز کے عوض 8 پاکستانیوں کا شکار کیا
2008 کے بعد لارڈز جیسے تاریخی گراونڈ پر پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ٹیسٹ میچ شروع ہونے کو ہے اور اس ٹیسٹ میچ میں قیادت کا اعزاز سرفراز احمد کو حاصل ہورہا ہے اور وہ نوجوان ترین ٹیم کے ساتھ دنیائے کرکٹ کی مستند ترین ٹیم کے خلاف میدان میں اتریں گے،،،، ماہرین کرکٹ کا ماننا ہے کہ نوجوان ٹیم میں انگلینڈ کو اس کے ہوم گراونڈ پر چت کرنے صلاحیت موجود ہے جبکہ کچھ اسے اسد شفیق اور اظہر علی کی کارکردگی سے منسلک کر رہے ہیں،،، اگرچہ پاکستان کے پاس بہترین فاسٹ باولنگ اٹیک موجود ہے جو کہ کسی بھی بیٹنگ لائن صفیں ادھیڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر باولرز کی کارکردگی پر پانی پھیرنا ایک مدت سے پاکستانی بلے بازوں کا کمال رہا ہے
لارڈ زٹیسٹ فاسٹ باولر محمد عامر کے لیے امتحان کی سی صورت حال کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ میچ کے دوران ان کو تلخ جملے سننے کو ملیں،،، اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ کپتان ان کو باونڈری لائن پر کھڑا نہ کریں اور پریشر صوت حال میں کارکردگی دکھانا محمد عامر کے لیے کوئی اتنا مشکل ٹاسک نہیں ہے کیونکہ محمد عامر ایک مضبوط اور شاطر ذہن کا حامل کھلاڑی ہے ،،، مگر شاید لارڈز گراونڈ خود ان سے گلہ کرے کہ عامر تم نے مجھے داغدار کرکے اچھا نہیں کیا تھا
البتہ کپتان سرفراز احمد اس ٹیسٹ کو اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر جیتنے کے خواہاں ہیں ،،، ساتھ ہی ساتھ کپتان سخت سردی سے خاصے نالاں نظر آ رہے ہیں کہ جیبوں سے ہاتھ نکالنے کو جی ہی نہیں کرتا
تو جناب جیبوں سے ہاتھ تو نکالنے پڑیں گے اور میری خواہش ہے کہ سرفراز احمد نہ صرف بلے بازی بلکہ اپنی عمدہ وکٹ کیپنگ سے بھی اس ٹیسٹ کو یادگار بنائیں کیونکہ گورے بازوں کو اگر ایک چانس مل جائے تو پھر ان کی پکڑائی مشکل ہوجاتی ہے،،، اگرچہ انگلینڈ کی ٹیم اپنے ہوم گراونڈ میں سخت ترین حریف ثابت ہوتی ہے مگر ان کو زیر کرنے کے لیے گرین کیپس کو عمدہ فیلڈنگ بھی کرنا ہوگی
یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ہار جیت سے بالاتر ہوکر لارڈز پر ٹیسٹ میچ کھیلنا کسی بھی ٹیم اور کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے اور کچھ کھلاڑیوں نے تو یہاں اپنی شادی کی تقریبات کرکے بھی اس گراونڈ سے اپنے لگاو کا اظہار کر رکھا ہے جن میں پاکستانی آل راونڈر یاسر عرفات بھی شامل ہیں
ایک طویل مدت کے بعد کوئی تحریر لکھی ہے ،،، امید ہے کہ کچی پکی یہ تحریر آپکو پسند آئے گی اور آپ کو اس تاریخی گراونڈ کی عظمتوں کی کچھ جھلک اس تحریر میں دیکھنے کو ملی ہوگی ،،، ہماری دعائیں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیں کہ وہ ٹیسٹ میچ میں بھی فتوحات کا سلسلہ تواتر سے جاری رکھے اور ٹیم اپنے کپتان کی خواہشوں کو پورا کرے ،،، مگر میری خواہش ہے کہ پاکستان ٹیم اس گراونڈ پر جیتے نہ جیتے مگر کرکٹ کی تمام اخلاقی اقدار کا ایسا مظاہرہ کرے کہ شائقین کرکٹ داد دیے بنا نہ رہ سکیں ،،، اس گراونڈ کے قرض ہیں جو قومی کرکٹ کو اتارنا ہیں اور وہ قرض جیت سے ہر گز ادا نہیں ہونگے بلکہ لارڈز اینڈ جنٹیلمین کھیل کے تقاضے پورے کرکے ہی اتارے جا سکتے ہیں ،،، سابق کپتان مصباح الحق نے جو اخلاقی اقدار سرفراز احمد کے حوالے کی ہیں ان کا بھرم رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے اور سرفراز الیون سے توقع ہے کہ قومی ٹیم اپنے عمدہ رویے سے حاضرین گراونڈ کے دل جیت لیں اور کچھ ایسا کر دکھائیں کہ تماشائی کھڑے ہوکر پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے تالیاں بجائیں اور نوجوان ٹیم مصباح الیون کی طرح ایک بار پھر سے ڈنڈھ نکالتی دکھائی دے اور جیت کا تحفہ دیکر پوری ٹیم سلامی دیتی نظر آئے
اپنی رائے کا اظہار کریں