ابتسام شیخ — حیدر آباد، فیصل آباد اور پشاور تک کا سفر
متحدہ عرب امارات میں جاری پاکستان سپر لیگ میں ابھی تک ذیادہ تر متاثر کن پرفارمنسز منجھے اور سینیئر کھلاڑی ہی دکھا رہے ہیں،،، اور اس میگا ایونٹ میں ایک بار پھر یہ اشارہ دے دیا کہ پاکستان ڈومیسٹک میں پاور ہٹرز اور مستند بلے بازوں کی کمی ہے،،، فواد عالم اور عابد علی جیسے کارکردگی دکھانے والوں کو کسی ٹیم نے اپنا حصہ بنانے کا رسک ہی نہیں لیا ،،،، پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ سمجھ لینا ہوگا کہ اگر ڈومیسٹک کرکٹ کو مثالی اور جاندار نہ بنایا گیا تو پاکستان سپر لیگ کا مستقبل بھی ذیادہ اچھا نہ ہوگا،،، کیونکہ تماشائیوں کو معیاری کرکٹ دیکھنے کو ملے گی تو وہ اسٹیڈیمز میں آئیں گے یا اپنا ٹی وی کسی سپورٹس چینل پر روک لیں گے ،،،
گزشتہ پی ایس ایل میں اسامہ میر نے سب کی توجہ حاصل کی تھی مگر اس کے بعد اس ہونہار باولر کو کہاں غائب کر دیا گیا ،،، کسی کو کچھ معلوم نہیں،،، حالانکہ پی ایس ایل تھری میں رائٹ لیگ سپنرز اپنی انفرادیت کی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں
پشاور زلمی جو کہ دفاعی چیمپیئن کی حیثیت سے میدان پی ایس ایل میں شائقین کرکٹ کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے ،،، حسن علی کا ان فٹ ہونا،،، محمد حفیظ کو باولنگ کی اجازت نہ ملنا جیسے عوامل نے پشاور زلمی کی باولنگ میں خاصا خلا پیدا کردیا ہے اور تاحال ایسا لگ رہا ہے کہ پشاور زلمی کو اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کے لیے بہت پاپڑ بھیلنا ہونگے
ابتسام شیخ جو دکھنے میں تو پندرہ سولہ کے محسوس ہوتے ہیں مگر ان کی عمر انیس برس ہے اور جب پہلے میچ کے شروع میں محمد حفیظ نے گراونڈ میں اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ ہمیں ابتسام شیخ سے بہت امیدیں وابستہ ہیں تو میری طرح پشاور زلمی کے تمام فینز کی آنکھیں ابتسام شیخ پر مرکوز ہوگئیں اور اپنے پہلے ہی میچ میں ان کو سنگاکارا جیسے مہان بلے باز کا سامنا کرنا پڑ گیا،،، سنگاکارا خاصے مشکل میں نظر آرہے تھے اور کرکٹرز جانتے ہیں ایسی صورت حال میں بلے باز لمبی شارٹ مار کر باولر کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں،، سنگاکارا نے بھی ایسا ہی کیا اور مڈ آف پر اونچی شارٹ کھیل دی مگر افسوس حماد اعظم نہ تو اس کیچ کو ریڈ کرسکے اور نہ ہی انہوں نے اس کیچ کو لینے کے لیے ایکسٹرا ایفرٹ کی،،، نوجوان باولر کا پریشان ہونا فطری عمل تھا،،، اگرچہ پہلے میچ میں ابتسام متاثر کن کارکردگی تو نہ دکھا سکے مگر انہوں نے نقارہ بجا دیا کہ وہ آئندہ میچوں میں بہت تنگ کریں گے اور پھر ہم نے دیکھا اس نوجوان کھلاڑی نے ناقابل یقین کیچ پکڑ کر اور مہان بلے بازوں کو چلتا کرکے اپنے روشن مستقبل گھنٹی بجا ڈالی
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان باولر دکھنے میں تو کوئی ڈاکٹر یا انجنیئر طرز کا لگتا ہے مگر اس کے خاندان میں تو متعدد ڈاکٹرز ہیں مگر حیدر آباد کے دوست بتاتے ہیں کہ یہ شروع سے ہی کرکٹ جنونی تھا اور جو ٹھان لیتا کر دکھاتا تھا
2015 میں حیدر آباد میں ہونے والے انڈر16 ٹرائلز میں وہ پی سی بی سلیکٹرز کو متاثر نہ کر سکے اور اس کی وجہ سمجھنا نہایت آسان ہے کہ ریجنل ٹھیکیدار ہمیشہ من پسند کھلاڑیوں کو منتخب کرواتے ہیں،،، پی سی بی سلیکٹرز محض سیر و سیاحت اور ٹی اے ڈی اے اور گورننگ بورڈ کی خوشنودی کے لیے شہر شہر ٹیلنٹ کی قربانی کرنے جاتے ہیں،،،
ابتسام شیخ نے نہایت ہی دلچسپ حرکت کی اور گھر مایوسی سے نہ لوٹا بلکہ اپنے بڑے بھائی سے 500 روپے کا تقاضہ کیا،، انہوں نے وجہ پوچھے بنا ابتسام کو 500 روپے دیے،،، یہ لڑکا بازار گیا اور دو بینرز بنوا لایا جس پر لکھا تھا کہ اگلے برس وہ انڈر 16 میں پاکستان بھر میں ٹاپ کریں گے اور پھر سب نے دیکھا کہ 2016 میں ابتسام شیخ نے انڈر16 میں حیدر آباد کی جانب سے 48 وکٹس لے کر نمبر ون باولر ہونے کا اعزاز حاصل کیا،،،،
مگر جس شہر میں یار محمد سولنگی جیسے بددیانت لوگ کرکٹ کے معاملات چلا رہے ہوں وہاں باصلاحیت کھلاڑیوں کو قلع قمع ہونا یقینی امر ہوتا ہے ،،، حیدر آباد نے اس نوجوان کھلاڑی کے ٹیلنٹ کی قدر نہ کی مگر سعید اجمل اور مصباح الحق جیسے کرکٹرز کہ جو ہمیشہ نوجوان کھلاڑیوں کی تاک میں رہتے ہیں انہوں نے ابتسام کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے فِصل آباد کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں شامل کر لیا اور یہی وہ پلیٹ فارم تھا جو ابتسام کی پہچان کا باعث بنا
پشاور زلمی کے ہیڈکوچ محمد اکرم المعروف حاجی بابا کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اگر وہ کسی نوجوان کھلاڑی کو ٹیم کا حصہ بناتے ہیں تو دیگر پاکستانی کوچز کی طرح اس خوف کا شکار نہیں ہوتے کہ اس کو ٹیم میں رکھا تو کہیں میچ نہ ہار جائیں ،،، وہ جس کھلاڑی پر اعتماد کرتے ہیں پھر اس کو پورا اعتماد دیتے ہیں ،،، کپتان ڈیرن سیمی اور حاجی بابا کی جگہ کوئی ہوتا تو ابتسام شیخ کو پہلے میچ کے بعد چانس نہ دیتا مگر ہم نے دیکھا کہ ابتسام شیخ کو ٹیم کا لازمی حصہ بنا کر پیش کیا اور ہر آنے والے میچ میں یہ نوجوان کھلاڑی بڑے عزائم اور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے،،، اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے میچوں میں پشاور زلمی نہ صرف کم بیک کرے گا بلکہ ان کی فتوحات میں ابتسام شیخ کا نمایاں حصہ ہوگا
مگر میرے ذہن میں سوال روایتی ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اس باصلاحیت کھلاڑی کی دیکھ بھال کرے گا یا متعدد باصلاحیت کھلاڑیوں کی طرح اسے بھی کچھ عرصے بعد منظر سے غائب کردیا جائے گا،،، کیا اس کا مستقبل بھی عثمان قادر اور اسامہ میر جیسا ہوگا ؟ یا پھر کے ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لیے اسے قومی ٹیم کے بیک اپ میں رکھا جائے گا،،، درست ہے کہ شاداب خان اور یاسر شاہ کی موجودگی میں کسی لیگ سپنر کا ٹیم میں آنا خاصا مشکل کام ہے مگر اگر اس نوجوان کھلاڑی نے پھر سے بینرز پر لکھوا کر اپنے گھر اور محلے میں لگا دیا کہ میں پاکستان فرسٹ کلاس کرکٹ کا نمبر ون باولر بن کر دکھاوں گا اور اگر اس نے ایسا کر دکھایا تو پھر سلیکٹرز کو گھٹنے ٹیکنے پڑ جائیں گے،،،، اگر کوئی کرکٹر کارکردگی دکھانے کے باوجود مایوس ہے اور کرکٹ چھوڑنے کا سوچ رہا ہے تو ابتسام شیخ ان کے لیے مثال ہے کہ نمبر ون سیٹ ہمیشہ خالی ہوتی ہے ،،، میڈیا پر بیانات اور سسٹم پر تنقید کی بجائے وہ اپنی محنت سے نمبر ون کی خالی سیٹ پر قبضہ کر لیں،،،، یقین مانیے کہ مصباح الحق جتنی ذیادتیاں پاکستان میں کسی کرکٹر کے ساتھ نہیں ہوئیں مگر یہ محنت ہی تھی کہ جس نے مصباح الحق کو عزت، وقار اور شہرت کی ان بلندیوں پر بٹھا دیا کہ جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے
مجھے ابتسام شیخ کی صلاحیت،،، جاوید آفریدی کی Care اور حاجی بابا پر پورا اعتماد ہے اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ جاوید آفریدی اور حاجی بابا ابتسام شیخ کی ایسی دیکھ بھال کریں گے کہ وہ حسن علی کی طرح ایک دن دنیائے کرکٹ میں درخشندہ ستارہ بن کر ابھرے گا
اپنی رائے کا اظہار کریں