میڈیا آگ پر تیل چھڑکنے کا سلسلہ بند کیوں نہیں کرتا؟
گزشتہ چند روز میں قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کے ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کو لیکر بیان بازی کا ایک طوفان بپا ہوگیا ہے،،،،، انٹرویو تو یہ چند منٹ کا ہے مگر کئی پہلووں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،،،،میزبان نے جب سوال کیا کہ راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کہتے ہیں کہ سرفراز احمد نارتھ ناظم آباد کے کپتان محسوس ہوتے ہیں تو اس پر کپتان سرفراز احمد کا رد عمل خاصا جارحانہ نظر آیا،،،،
یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ سرفراز احمد ایک محب وطن ،،ایماندار اور محنتی کھلاڑی ہیں،،، اور مڈل کلاس معاشرے کے نمائندے کے طور پر ابھرے ہیں اور وہ اپنی اس پہچان کے اظہار میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا نہ شکار ہیں اور نہ کسی کمپلیکس میں مبتلا ہیں
واپس مزکورہ انٹرویو کی طرف آتے ہیں،،، اور میں میڈیا کے اس کردار کی نشاندہی ضرور کرنا چاہوں گا،،، کہ قومی سٹارز کے ایک دوسرے متعلق بیان بازی پر سیاسی ٹاک شوز کی طرز پر رد عمل لینا کسی طور بھی مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا،،،،اور اس سے کھیل کی کوئی خدمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ ریٹنگ اور شاید ذاتی پزیرائی کا حصول اہداف میں شامل ہوتے ہیں،،،،مگر اس سے تنازعات کا پیدا ہونا فطری عمل ہوتا ہے،،،ہمیں میڈیا کا یہ کردار قطعی طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے،،،بلکہ اس کی مزمت اپنے اپنے انداز میں کرنی چاہیے تاکہ ہماری ناپسندیدگی چینل مالکان تک پہنچے اور وہ اس سلسلے کے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں
اس طرح راولپنڈی ایکسپریس کے متنازعہ بیان کو بھی مناسب قرار دیا جانا بھی درست نہیں،،،تجزیہ نگاروں اور سابق کرکٹرز سے بھی یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ الفاظ کے چناو میں احتیاط سے کام لیں اور پی سی بی سے پرانی رنجشوں کا غصہ کھلاڑیوں پر مت اتاریں،،، یہ تو ماننا پڑے گا کہ اب میڈیا پر بیان بازی ہی ان کا آخری محاذ بچا ہے،،، لہذا وہ شعلہ بیانی کی بجائے ہوم ورک اور مطالعے کو اپنا شعار بنائیں تو ذیادہ مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں،،،،
تنقید کو صرف کھیل کی تکنیک ،،،،حکمت عملی،،، اور Execution کی حد تک رکھ کر اپنے ناظرین کو کھیل کی باریکیوں سے آگاہ کرنے سے مثبت اور صحت مندانہ صحافت کے ساتھ ساتھ کھیل اور کھلاڑی کی بھی بہتری ہوگی
اپنی رائے کا اظہار کریں