ذمہ داران وائیٹ واش کون ؟ فیصلہ آپکا
سنتے آئے تھے کہ کرکٹ بائی چانس اور ہاکی بائی چلاکی۔۔لیکن پاکستان کی ٹیم نے کرکٹ کو “کرکٹ بائی مذا ق “بنا دیا ہے۔چمپیئنز ٹرافی کی فاتح نیوزی لینڈ میں “سفید دھل” گئی۔ہماری ٹاپ آرڈر ہر میچ کو مذاق سمجھ کر کھیلتی رہی۔ہمارے کیپٹن صاحب چمپیئن ٹرافی جیتنے کے بعد کچھ “ایزی فیل “کر گئے اور کوچ صاحب شائد چمپیئنز ٹرافی کی فتح کا نشہ ابھی تک اتار نہیں پائے۔اور بولرز ابھی نیٹ بولنگ سے ہی باہر نہیں نکلے۔۔ 148۔148 رنز کے ساتھ حفیظ اور فخر ٹاپ آرڈر بیٹنگ میں نمبر ون رہے۔اس کے بعد نوجوان آل راونڈر شاداب دو نصف سینچریوں کے ساتھ 134 رنز بنا کر تیسرے نمبر پر رہے۔لیکن بیٹنگ اوسط میں نمبر ون حارث سہیل رہے جنھوں نے دو میچز میں 113 رنز بنائے۔شعیب محض 49 رنز سکور کر سکے۔مستقبل کے سٹار بابر اعظم 5 میچز میں محض 33 تک محدود رہے۔ بولنگ میں رومان رئیس 8 وکٹیں لے کر نمایاں رہے ۔حسن نے 6 اور شاداب فہیم نے 5 وکٹیں لیں۔جبکہ مشہور و معروف ہستی عامر صاحب محض 2 وکٹ لینے میں ہی کامیاب رہے۔ 5 میچز میں 4 اوپننگ پیئرذ آزمائے گئے اور تقریبا سب ناکام رہے۔اظہربھی اپنی سیلکشن درست ثابت نہ کر سکے۔ سرفراز پلینگ الیون منتخب کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دئیے۔پوری سیریز میں انکا اپنا مجموعی ٹوٹل 79 رنز رہا۔جو کسی بھی طور سرفراز کے شایان شان نہیں۔حارث سہیل کو مسلسل 3 ممیچز باہر بٹھا کر ٹیم کو ایک آل راونڈر سے محروم رکھا گیا۔ایک میچ میں فخر سے بولنگ کروائی جاتی ہے۔دوسرے میں شعیب سے 6 اوورز کرائے جا رہے ہیں۔تیسرے میں حارث سے۔چوتھے میں پارٹ ٹائم بولر کی زمہ داریاں عمر امین نبھا رہے ہیں۔یہ کیا مذاق کیا جا رہا ہے ٹیم کے ساتھ۔ ،،،،،حفیظ جیسے ریگولر اوپنر کے ہوتے فہیم سے اوپن کروائی جا رہی ہے۔سرفراز خود بھی اوپن کر سکتا تھا فہیم کی جگہ۔بابر مسلسل ناکام ہو رہا تھا۔پریشرمیں کھیل رہا تھا۔بجائے اس کے کہ اسے آرام دیا جاتا یا چوتھی پانچویں پوزیشن پر بھیجا جاتا۔اس کو ون ڈاون ہی بھیجا گیا۔نیوزی لینڈ کے پلیئرز کا فاسٹ بولر کو اچھا کھیلنے کی صلاحیت کے باوجود صرف ایک ریگولر سپینر سے میچز کھیلے گئے(ماسوائے آخری میچ کے)۔ایک مزید لیگ سپنر شائد سیریز کے نتائج مختلف بنانے میں مددگار ثابت ہوتا۔۔کپتان اور ٹیم مینجمنٹ کی پچ ریڈنگ صلاحیت انتہائی ناقص رہی۔جہاں 2 سپنرز اور 3 فاسٹ بولرز لھلائے جانے چاہیئے تھے وہاں 4 فاسٹ بولرز سے کام چلایا گیا۔سرفراز کو اوپر کے نمبرز پر کھیلنے کا خوف زہن سے نکالنا ہو گا۔خاص طور پر جب نیچے شاداب فہیم رومان رئیس ہارڈ ہٹنگ کے لیئے موجود ہوں۔مستقبل کے سپر سٹار حسن آوٹ آف کلر نظر آئے۔ایک اور بڑی خامی نئی گیند استعمال کرنے کی تھی۔عامر اپنی اصل فارم میں نہ تھا اور دوسرے اینڈ سے نئی گیند کرنے کے لیئے بولر دستیاب نہ تھا۔ حال کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہی مستقبل کے لہئے فتوحات سمیٹی جا سکتی ہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں