ششما جی ،،، تو کیا سرتاج عزیز کو چیئرمین پی سی بی بنا دیں؟
بھارتی وزیر خارجہ ششما کے حالیہ بیان نے مودی نواز دوستی کے غبارے کی ہوا نکال دی جب انہوں نے کہا کہ پاک بھارت قیدیوں کے تبادلے کا تو یہ بہترین موقع ہے مگر حالات اجازت نہیں دیتے کہ مستقبل قریب میں بھی پاک بھارت کرکٹ ممکن ہوسکے،،، ان کے بیان سے محسوس ہوا کہ بھارت نے پاکستان کو دانہ ڈالا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے میں کئی ایجنسیوں کے چہیتے کلبھوشن کو بھی چھوڑ دیا جائے،،، تاہم سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کے کا سب کیا دھرا خاک میں مل گیا اور نجم سیٹھی کو اب کھلا موقع مل گیا ہے کہ انہوں نے جو ایک ارب روپیہ بھارت کے خلاف مقدمے بازی کے لیے مختص کیا ہے اس کو اب ٹھاہ ٹھاہ کرکے استعمال کیا جائے ،،،یہ الگ بات ہے کہ احسان مانی اور خالد محمود اور شہریار خان جیسے زیرک اور دور اندیش صاحبان یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ پیسے کے ضیاں کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا،،، مگر یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ نجم سیٹھی جو ٹھان لیں وہ کر گزرتے ہیں،، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے پاک بھارت کرکٹ بھی ٹھان رکھی تھی مگر ششما سووراج کے بیان نے پی سی بی کی توپوں کو خاموش کر دیا ہے مگر راشد لطیف اور رمیض راجہ سمیت چند سابق کرکٹرز نے بھارتی بیان پر نہ صرف اظہار افسوس کیا ہے بلکہ سخت اقدامات لینے کا مشورہ دیا ہے
صاحب یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جو بھی چیئرمین بنتا ہے کہ وہ پیٹرن یعنی وزیر اعظم پاکستان کو اس یقین دہانی کرواتا ہے کہ میں بحال کرواوں گا پاک بھارت کرکٹ اور اسی دعوی پر شہر یار خان نے لمبے عرصے تک پاکستان کرکٹ بورڈ میں پرتعیش زندگی کے مزے اڑائے مگر یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ نجم سیٹھی کا پی ایس ایل خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا اگر شہریار خان کا تعاون شامل حال نہ ہوتا،،، ہاں یہ الگ بات ہے کہ پی ایس ایل کو پرائیویٹ کمپنی بنانے میں نجم سیٹھی کے آگے جو سب سے آہنی دیوار بنے وہ بھی شہریارخان ہی تھے
2018 الیکشن کا سال ہے اور پاکستان مسلم لیگ کو اپنی ساکھ برقرار اور بحال کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنا ہونگے کیونکہ تاریخ سب سے بڑی مزاحمت ان کو عمران خان اور دیگر جتھوں کی صورت میں دیکھنی پڑی ہے،،، کرکٹ بخار میں پاکستان کا ہر شہری مبتلا ہے اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحالی کا نعرہ آپ کو پاکستان مسلم لیگ کے جلسوں میں سننے کو ملے گا،،،، مگر مسلم لیگ ن کے نامزد وزیر اعظم شہباز شریف خواہاں ہیں کہ پی ایس ایل تھری کا فائنل بھی لاہور میں ہو مگر ان ہی کی حکومت کے نامزد کردہ چیئرمین نجم سیٹھی اس دفعہ پی ایس ایل فائنل کراچی میں کروا کر مقبول فیصلہ تو کر لیا مگر اس فیصلے کو حکومتی فیصلہ شاید نہیں کہا جا سکتا،،، اگر الیکشن 2018 سے پہلے پاک بھارت کرکٹ ہوجاتی ہے تو یہ موجودہ حکومت کا چھکا ثابت ہوسکتا ہے اور اگر کوئی شخصیت یہ چھکا مار سکتی ہے تو وہ ہیں سرتاج عزیز کیونکہ ان کے ششما سووراج سے بڑے دوستانہ اور پرتپاک تعلقات ہیں اور اگر سرچ انجن پر ان دونوں کے نام لکھے جائیں تو ایسی الفت بھری تصاویر سامنے آتی ہیں جو پکے ٹھکے دوست ہونے کی بھرپور عکاسی کرتی نظر آتی ہیں،،،
ہمارا موجودہ حکومت کو مشورہ ہے کہ سرتاج ششما کی دوستی کو کیش کروایا جا سکتا ہے،، سرتاج عزیز صاحب کے پاس کوئی اتنا اہم عہدہ بھی نہیں لہذا ان کو چیئرمین پی سی بی بنا دی جائے تو پاک بھارت سیریز کی راہیں کھل سکتی ہیں،،، کیونکہ بھارت کے لیے پاکستان سے کرکٹ کھیلنا کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے مگر دونوں جانب کے بورڈز میں اپنی اپنی حکومت کو مائل کرنے والے تو کم ہیں ہاں جے جے کار کرنے والے قدم قدم پر ہیں،،سرتاج عزیز اور ششما جی دونوں جانب ایسے چہرے ہیں جو مزاکرات کی چند نشستوں کے بعد یقینی طور پر اپنی اپنی حکومت کو منا سکتے ہیں پاک بھارت کرکٹ میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے نقصان نہیں ہے کیونکہ دونوں طرف کی عوام اور کھلاڑی تو بے تاب ہیں کہ کرکٹ ہو مگر پیسہ ہڑپ کرنے کے عادی اصل تصویر حکومتوں کے سامنے آنے ہی نہیں دیتے اور وہ ایسے بیان دیتے اور دلوا دیتے ہیں کہ معاملات کی گتھی سلجھاو کی بجائے مزید الجھاو کا شکار ہوجاتی ہے اور کرکٹ کی بجائے ان کے ذاتی اہداف بآسانی پورے ہوجاتے ہیں ،،،ہاں وہ واویلا ایسا کرتے ہیں کہ ہم بے وقوف لوگوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ بندہ ہمارے جزبات کی درست ترجمانی کررہا ہے اور یہ کچھ کرکے دکھائے گا،،، پاکستان اور بھارت کے عوام کی کرکٹ دوستی کو جس جس طریقے دونوں جانب کیش کیا جارہا ہے وہ کسی نان سٹاپ فلم سے کم نہیں،،، مگر عوام کا کیا ہے ،،، وہ تو سارے سال کی استحصالی ایک ہفتے کی مہربانی سے بھول جاتی ہے،،،
اپنی رائے کا اظہار کریں