وزیر اعظم صاحب، سنوکر پلیئرز کو شاباش ہی دے دیں
چیمپیئنز ٹرافی میں فاتح کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں تقریبات اور انعامات کے اعلان کا سلسلہ ہے کہ رکنے میں ہی نہیں رہا اور کھلاڑیوں کو رات و رات کڑوڑ پتی،کار پتی اور پلاٹ پتی کردیا گیا، وزیر اعظم ہاوس میں بھی ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا جسمیں ٹیم کے ہر کھلاڑی کو ایک ایک کڑوڑ جبکہ ٹیم منیجمنٹ کو پچیس سے پچاس لاکھ روپے فی کس انعامات دیے گئے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے متوقع چیئرمین نجم سیٹھی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے چند ایسے چہروں کو بھی لاکھوں کے چیک لے دیے کہ جن کا ان پر کسی بھی طرح سے حق نہیں بنتا تھا مگر جب اقتدار ہو تو سب غلط صحیح شمار کیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جس کی بھینس اس کی لاٹھی ہوتی ہے،،،، کرکٹ وہ کھیل ہے کہ جو فرنگی جاتے ہوئے ہمیں تحفے میں دے گیا اور آج بھی کرکٹ ذیادہ تر ان ممالک میں کھیلی جاتی ہے کہ جہاں کسی نہ کسی دور میں انگریز راج رہا ہے
سنوکر آج سے پندرہ بیس سال پہلے بڑی مقدس کھیل تھی اور اس کو کھیلنے کا حق صرف دولت والوں کو تھا،،،غریب اس کھیل کے نزدیک تک نہیں آ سکتا تھا،،،، سنوکر کے ٹیبل آفیسرز کلبز اور بڑے ہوٹلوں میں رکھے ہوتے تھے اور جہاں دولت والے ہی اس کھیل سے لطف اندوز ہوسکتے تھے،،،،پھر گجرات میں اس کی ٹیبل بننا شروع ہوئیں اور آہستہ آہستی یہ کھیل اتنا وائرل ہوگیا کہ اب شاید کوئی پبلک پوائنٹ ہو جہاں سنوکر کلب نہ ہو یا پھر ٹیبل سرعام نہ پڑھا ہو،،،اب پاکستان کے اکثریتی لوف اس کھیل کے اچھے خاصے پلیئرز بن گئے ہیں،،،،، محمد یوسف نے ورلڈچیمپیئن بن کر دنیا کو حیران کردیا کہ پاکستان بھی ایسا ملک ہے کہ جہاں یہ کھیل ترقی پارہا ہے،،، شروع میں یہ کھیل گجرات کے علاوہ لاہور کراچی، راولپنڈی اسلام آباد کے علاوہ فیصل آباد اور سرگودھا میں ترقی کرنے لگا ،،،، فیصل آباد کے محمد آصف بھی ورلڈچیمپیئن بن کر پاکستان کے لیے باعث فخر بنے،،،،، رانا سجاد کہ جنہوں نے نہایت چھوٹے لیول سے سنوکر شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ورلڈ ٹیم فاتح بنے،،،،پھر ایشین چیمپیئن بنے اور ابھی حال ہی میں وہ پھر سے ایشین چیمپیئن بن کر لوٹے ہیں،،، ابھی رانا سجاد کے ایشین چیمپیئن بننے کی خبریں گردش میں تھیں کہ ایک بڑی خبر آگئی کہ نسیم اختر نے ورلڈ سنوکر چیمپیئن کا اعزاز حاصل کرلیا ہے،،، ساہیوال کے اس نو عمر کھلاڑی نے نامساعد حالات میں سنوکر شروع کی اور اپنی محنت سے عالمی چیمپیئن ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا،،،، کرکٹ ٹیم کا ہر کھلاڑی جس شہر میں بھی آیا وہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا،،،چاہے وہ کھلاڑی کوئی میچ کھیلا یا نہیں،،،مگر ہم نے دیکھا کہ ورلڈ چیمپیئن کا استقبال کرنے والوں میں ان کے والد کے علاوہ چند افراد تھے،،،
رانا سجاد اور نسیم اختر دونوں نے پنجاب و وفاقی حکومتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب ان کے لیے کسی انعام کا اعلان کیا جاتا ہے،،،مگر ایسا ہوتا اس لیے نہیں دکھائی دے رہا کہ دونوں کھلاڑیوں نے فتوحات اس وقت حاصل کیں کہ جب حکومتوں کا اپنی پڑی ہے اور کوئی ان تک یہ خبر پہنچانے کو تیار نہیں کہ سنوکر میں ہمارے کھلاڑی ایشین اور عالمی کھلاڑی بن گئے ہیں،،،، بلاول بھٹو کی جانب سے نسیم اختر کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کا اعلان تو کیا گیا مگر میرا نہیں خیال یہ وعدہ شرمندہ تعیر ہو کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنے آخری سانس کب کی لے چکی اور ان کو کیا لگے کہ پنجاب کا ایک کھلاڑی ورلڈ چیمپیئن اور ایک کھلاڑی ایشین چیمپیئن بن گیا ہے،،،، ہاں اگر نسیم اختر کا تعلق لاڑکانہ سے ہوتا تو شاید یہ وعدہ پورا ہوجاتا،،،، بحریہ ٹاون کے روح رواں ملک ریاض بھی ایسے موقعوں پر پیچھے نہیں رہتے مگر شاید ان تک بھی یہ پیغام پہنچانے والا کوئی نہیں،،، یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ پاکستان سنوکر فیڈریشن نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلاڑیوں کی فتوحات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے،،،، شاید ساری کی ساری پاکستان سنوکر فیڈریشن کراچی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے بھی کھلاڑیوں کی کامیابیوں کو ٹھیک طریقے سے اجاگر نہیں کیا گیا،،،،
ایشین اور عالمی چیمپیئن بننے والے کھلاڑیوں کے ابتدائی سفر میں بھی کہیں ایسوسی ایشن یا کھیلوں کے صوبائی و وفاقی اداروں کی سرپرستی نظر نہیں آتی یہ کھلاڑی انتہائی مشکلات کا سامنا کرکے اپنے شوق کی آبیاری کرتے ہیں،،،، نسیم اختر کے والدین نے بھی ابتدائی طور پر اس ہونہار کھلاڑی کی حوصلہ شکنی کی مگر نسیم اختر کے شوق اور ٹیلنٹ نے ان کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے بیٹے کو نہ صرف کھیلنے کی اجازت دیں بلکہ ورلڈچیمپیئن کے مقابلوں میں شرکت کے لیے مالی طور پر بھی سپورٹ کریں
نسیم اختر اور رانا سجاد کی فتوحات کا اعتراف اور انعامات کا اعلان پاکستان سپورٹس بورڈ اور سپورٹس بورڈ پنجاب کے ذمے آتا ہے مگر ان دونوں اداروں میں بھی مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے،،،،ان دونوں ہیروز کے بیانات تو آ چکے ہیں کہ کرکٹ کی طرح ان کے لیے بڑے انعامات کا اعلان کیا جائے مگر ان کی اپیل پر ابھی تک کسی کان پر جوں نہیں رینگی،،، میڈیا بھی روایتی بے حسی کا شکار ہے اور ان دونوں فتوحات کو کرکٹ کی طرح اجاگر کرنے سے عاری ہے،،، میڈیا کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نسیم اختر کا استقبال ایئرپورٹ پر کرنے کی بجائے اسے کہا گیا کہ وہ سپورٹس بورڈ پنجاب کے باہر آجائے تاکہ اس کا ایک مشترکہ انٹرویو کرکے چلایا جاسکے،،،،
یہ زندہ قوموں کا وطیرہ نہیں ہوتا،،، نسیم اختر کا تعلق کسی مہزب اور ترقی یافتہ ملک سے ہوتا تو اس کو ہیرو کا درجہ دیا جاتا اس کے لیے خصوصی محفلیں سجائی جاتیں ،،،اس کو انعامات سے لاد دیا جاتا،،، اور ایسی مراعات دی جاتیں جو ایک ہیرو دی جاتی ہیں،،،، ہم نے ٹی وی شوز میں دیکھا کہ کھلاڑیوں کو چار چار مہنگی گاڑیاں دی گئیں مگر ان کھلاڑیوں کا ابھی تک کسی نے موٹر سائیکل بھی نہیں دیا،،،،ایسی استحصالی صورت حال کو دیکھتے ہوئے لاکھوں قیمتی پاکستانی شہری دوسرے ممالک میں منتقل ہوگئے اور ان ممالک میں اپنے اپنے شعبے ماہر بن کر وہاں کے معاشرے کی خدمت میں مصروف عمل ہیں،،،اگر نسیم اختر کیسے کھلاڑی بھی استحصالی صورت حال دیکھیں گے تو ان کے دل میں کیسے مزید کچھ کر دکھانے کا جزبہ پیدا ہوگا،،،، ہوگا کیا؟ کچھ عرصہ بعد نسیم اختر بھی دیگر کھلاڑیوں کی طرح اپنے شہر میں سنوکر کلب بنالے گا اور پھر وہ اسی کا ہوکر رہ جائے گا،،،یہ تو بھلا ہو نیشنل بنک کا کہ جو سنوکر کے کھلاڑیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرکے ان کی فکر معاش دور کرتا ہے ورنہ اس کے علاوہ پاکستان میں ایک بھی ادارہ نہیں کہ جو سنوکر کے کھلاڑیوں کو روزگار فراہم کرے حالانکہ سنوکر میں پاکستانی فتوحات تواتر سے دیکھنے میں آرہی ہیں جبکہ ایسی ٹیموں پر کڑوڑوں خرچ کیے جارہے ہیں کہ جن سے پاکستان عالمی تو کیا ایشین میڈل لانے سے بھی قاصر ہے
پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ کسی بھی حکومت کو کھیلوں کی اہمیت کا پتہ ہی نہیں اور اس شعبے کو واجبی توجہ دی گئی ہر دور میں ہر کھیل کے کھلاڑیوں نے مہارت اپنے بل بوتے اور محنت پر حاصل کی ،،،کوئی ایسا نظام وضح آج تک نہیں کیا گیا کہ فروغ کھیل خود سے جاری رہے اور کھلاڑیوں کو پتہ ہو کہ جیت کی صورت میں ان کو کیا انعام ملے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی کھیل سے ہو،،، کھلاڑیوں کے تعلیمی معاملات صوبائی سپورٹس بورڈز کے ذمے ہوں،،،مگر افسوس کہ پاکستان میں سب کچھ ایڈہاک ازم پر چلایا جارہا ہے ،،،،چند کھیلوں کے علاوہ باقی تمام کھیلوں کے کھلاڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،،،ہماری وزیر اعظم پاکستان سے اپیل ہے کہ جیسے کرکٹ ٹیم کو آنر کیا گیا ایسے ہی سنوکر کے کھلاڑیوں کو عزت دی جائے ان کے انعامات کے علاوہ اعزازات کا بھی اعلان کیا جائے،،،،سرگودھا اور ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ان کھلاڑیوں کے دلوں سے احساس کمتری ختم کرنا حکومت کا فرض ہے،،، ایسے ہیروز کو نوازنے سے حکومت کی نیک نامی کا باعث بنے گا بصورت دیگر ہر آنے والا الیکشن یا جے آئی ٹی ان کا احتساب کرتا رہے گا
اپنی رائے کا اظہار کریں