جیسی روح – ویسے فرشتے
ایک طویل تعطل کے بعد دل چاہا کہ لکھا جائے، آفتاب تابی میری یک طرفہ محبت رہی ہے ،،،،ویسے محبت یکطرفہ ہی ہوتی ہے، دو طرفہ تو تعلقات ہوتے ہیں،،،تو سوچا چلیں اس دفعہ آفتاب تابی سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ مناسب سجھے تو اس تحریر کو اپنی نہایت عمدہ اور بھرپور ویب سائٹ تابی لیکس پہ جگہ دے دے
پاک بھارت میچ سارے پاکستانیوں کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی ہر طرح کی دعاوں اور وظائف کے باوجود خوب خوب رلایا،،،اسی میچ نے ایک مدت بعد قلم کو اکسایا کہ ساتھ دے اور یہ جائزہ لینے کی ہمت دے کہ ہم غلط ہیں کہاں؟ہماری قومی کرکٹ ٹیم آخر مسلسل اچھا پرفارم کیوں نہیں کر پا رہی؟ ہماری بیٹنگ اگر ناقابل اعتبار ہے تو ہماری باولنگ نے کونسے جھنڈے گھاڑ رکھے ہیں؟ اور فیلڈنگ تو سونے پہ سہاگہ ہے،،،اگر ہم ایک ایک پہلو کا تجزیہ کرنے لگیں تو یقین کیجیے کہ بات نہیں بنے گی،،،،،، پاکستان اگر واقعی اپنی کرکٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور اسے درست سمت میں گامزن کرنے کا خواہاں ہے تو آغاز بے رحم احتساب سے کرنا ہوگا
بے رحم احتساب سے ہر گز مراد کسی کو پھانسی دینا مقصود نہیں ہے لیکن خود کو دھوکہ دینا بند کر دیں، خود سے جھوٹ بولنا بند کردیں،،،ہم سب خود سے جھوٹ بول رہے ہیں،،،،ہم سب دعاوں کے طفیل ،،،رحمت خداوندی کے باعث ہمیشہ کسی معجزے کے منتظر رہے ہیں،،،،لیکن دیگر ممالک اس دوران کہاں سے کہاں پہنچ گئے،،،چونکہ ہم ہر بات اور ہر معاملے میں بھارت کی مثال دینا فرض سمجھتے ہیں تو چلیں اسی طرح بات شروع کرتے ہیں
اگر انڈین پریمیئر لیگ کو پہلے ایڈیشن سے دسویں ایڈیشن تک دیکھتے ہیں تو پہلے ایڈیشن سے لیکر دسویں ایڈیشن تک ایک واضح فرق نظر آتا ہے،،،، سب سے پہلے تو آپ اس ٹورنامنٹ کے معیار کو ہی لیجیے ،،،ہر ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے بڑھ کر دلچسپ اور تفریح سے بھرپور ہوتا ہے،،،ہر ایڈیشن میں کوئی نہ کوئی نئی چیز ، کوئی نہ کوئی نیا اصول کا تجربہ کیا جاتا ہے،،،،براڈ کاسٹنگ کے اعلی معیار سے لیکر گراونڈ کی ہر ہر چیز حقیقی معنوں میں عالمی معیار کی ہوتی ہے،،،آئی پی ایل کی منیجمنٹ کمیٹی نئے تجربے اور جدید ٹیکنالوجی سے کرکٹ کو ہم آہنگ کروا رہی ہے،،،اب صورت حال یہ ہے کہ انڈیا محض آئی پی ایل کی بدولت یتنی دولت کما رہا ہے جس کا شمار ممکن نہیں،،،مضحے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر ہم اتنی دولت پاکستان میں کسی ایونٹ سے کما رہے ہوتے تو اب اس ایونٹ نے دنیا کا غلیظ ترین ایونٹ ہوجانا تھا،،،اور یہ کسی اور نے نہیں،،،ہم پیارے پاکستانیوں نے خود کرنا تھا،،،
احقر طویل عرصہ سے امریکہ میں بسلسلہ روزگار مقیم ہے،،کرکٹ سے بے تحاشہ محبت کے باعث بہت سارے کرکٹ چینل خرید رکھے ہیں،،،میں بھارت کی آئی پی ایل کے علاوہ ڈومیسٹک کرکٹ بھی دیکھتا ہوں اور پوری دلچسپی اور توجہ سے دیکھتا ہوں،،،اس لیے کسی حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بھارتی کرکٹ پاکستانی کرکٹ سے تقریبا پندرہ سال آگے ہے،،،سیدھے سادھے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ پاکستان اگلے پندرہ سال تک بھارت سے جیت کے خواب دیکھنا چھوڑ دے اور ایک مزید بات یہ کہ ہم پاکستانی کسی تکے یا کسی کی معجزاتی کارکردگی سے بھی ایسا نہیں کر پائیں گے اور یہ سچ ہے،،، اور اس سچ کو جتنی جلدی مان لیں گے ہمارے حق میں بہتر ہوگا،،،اس سچ کو بنیاد بنا کر ہم اپنی آئندہ کرکٹ کی تعمیر نو کر سکتے ہیں،،،انڈین کرکٹ اگر پاکستانی کرکٹ سے پندرہ سال آگے ہے تو باقی دنیا کی کرکٹ سے بھی پانچ سات سال آگے ہی ہے،،،کچھ ممالک مثلا آسٹریلیا، ساوتھ افریقہ کسی حد تک انڈین کرکٹ کے قریب ہیں
پہلے آسٹریلیا اور اب بھارت نے کرکٹ کی اس تھیوری کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے کہ کرکٹ بائی چانس،،،،کبھی ہوتی تھی کرکٹ بائی چانس،،،اب کرکٹ میں اتنی ٹیکنالوجی اور جدیدیت آگئی ہے کہ اب آپ کو معروف تجزیہ نگار کھیل کے آغاز سے قبل ہی مختلف اعداد و شمار کی مدد سے تقریبا میچ کے نتیجے سے ہی آگاہ کر دیتے ہیں،،،میرا خیال ہے کہ ان معروف تجزیہ نگار حضرات کے قبل از وقت بتائے گئے نتائج شاید ہی کبھی غلط ثابت ہوئے ہوں،،،تو کرکٹ پھر بائی چانس تو نہ ہوئی
کرکٹ اگر بائی چانس ہوتی تو آسٹریلیا پانچ بار عالمی کپ نہ جیت سکتا،،،،دلچسپ امر یہ ہے کہ آسٹریلیا نے پانچ میں سے چار بار یہ ورلڈکپ اپنے ملک سے باہر جیت رکھا ہے اور مزید دلچسپی یہ کہ آسٹریلیا نے 1999، 2003 اور 2007 میں لگاتار تین دفعہ ورلڈکپ جیت کر کرکٹ بائی چانس کی تھیوری کو مکمل طور پر غلط ثابت کردیا
پہلے آسٹریلیا اور اب انڈیا نے (دس سال قبل اپنا کرکٹ کا ڈھانچہ بالکل بدل کر رکھ دیا ہے دونوں ممالک نے اپنی روایتی حدود اور کرکٹ کے ماحول کو سامنے رکھ کر ایسا سسٹم ترتیب دیا ہے کہ ان دونوں ممالک کی کرکٹ آسمان کی طرف گامزن ہے،،،آخر ان دو ممالک نے کونسا سسٹم اپنایا ہے ؟ ان کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے؟؟ اس پر انشاء اللہ اگلی نشست میں بات کریں گے
اپنی رائے کا اظہار کریں