سیٹھی صاحب، باپ کی بجائے بھارتی بیٹوں سے تو نپٹ لیں
صاحب گزشتہ ہفتے کے روز آپ نے تابی لیکس پر ایک خبر پڑھی ہوگی کہ پاکستان کرکٹ-دہلی سے گری کابل میں اٹکی، جی ہاں جب چھٹی کے روز پاکستان کرکٹ بورڈ کے بڑوں اور افغان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے مزاکرات ہوئے اور بے وقوف قوم کو لولی پاپ تھما دیا گیا کہ پاک افغان کرکٹ جی ہاں اب ہماری سپورٹس خارجہ پالیسی افغانستان کے قدموں میں آن گری ہے، اعلان ہوا کہ پاکستان کابل میں ایک ٹی ٹونٹی میچ کھیلے گی اور اسکے بدلے افغانستان ٹیم ہمیں شرف میزبانی بخشے گی،اور پاکستان کرکٹ کے بڑوں نے اسے بڑی کامیابی قرار دیا
پھر ہم نے دیکھا اور سنا کہ کابل میں افسوسناک واقعہ ہوا اور ایک دھماکے کی صورت میں اسی سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے،افغانیوں کی طرح ہمارے دل بھی بہت دکھے کیونکہ ہم کو دھماکے کے درد کا جتنا اندازہ ہے اور کسی ملک کو نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے، مگر افغان کرکٹ بورڈ تو شاید پہلے پر تول کر بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ بھی اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر کرکٹ سیریز ہونے کے جو آثار پیدا ہو رہے ہیں ان کو ختم کرکے کرکٹ میں ان کے آج کے وارثان یعنی بھارت کو خوش کردیا جائے گا، کمال ہے کہ مانچسٹر دھماکوں کے سلسلے میں پاکستان کو انگلینڈ سے واپس کیوں نہیں بھیجا گیا؟
ابھی کچھ ہی دن پہلے بنگلہ دیش بھی ہمیں دانت دکھا چکا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بنگلہ دیش میں کرکٹ سیریز سے معزرت پر انہوں نے اپنے قد اور حیثیت سے ذیادہ غصہ نکال ڈالا اور ہم چپ کرکے یہ جائزہ لیتے رہے کہ کہاں اپنا عزیز ایڈجسٹ کرنا ہے، چیئرمین پی سی بی کی راہ کیسے ہموار کرنی ہے
پی سی بی کے بڑے دوبئی میں بھارتی حکام سے مزاکرات کرکے آئے ہیں اور وطن واپسی کے بعد سیٹھ نجم سیٹھی کی جانب سے سلطان راہیانہ بھڑکیں سننے کو ملیں کہ پاک بھارت مزاکرات ختم نہیں ہوئے اور بھارت کے باپ کو بھی مزاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑے گا، تو جناب اگر کہیں نجم سیٹھی صاحب سے ملاقات ہوگئی تو ان سے پوچھیں گے کہ بھارت کا باپ ہے کون؟ امریکہ یا روس یا دونوں
یہاں شائقین کرکٹ کو یقین سے بتا دوں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت کرکٹ کے آثار موجود ہیں تو ہر گز نہیں ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں پی سی بی بڑے بھارت کے پیچھے کرکٹ کے لیے پڑے ہوئے ہیں تو سن لیجیئے ایسا بھی ہر گز نہیں ہے، یہ تو شہریار خان اور نجم سیٹھی مل کر زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح بھارت پاک بھارت سیریز نہ ہونے کی بنا پر پی سی بی کو جو نقصان ہوا اس کا زر تلافی ادا کیا جائے، جی ہاں ساری دوڑ پیسے کی ہے ،،،،کرکٹ کی ہرگز نہیں،،،بھارت سے دمڑی لینا اس کی چمڑی لینے کے مترادف ہوتا ہے، ہم کہتے ہیں تحریری معاہدہ ہوا تھا اور وہ اس معاہدے کو محض ایک خط قرار دے کر اس کی حیثیت ہی ماننے کو تیار نہیں
بنگلہ دیش اور افغانستان وہ ممالک ہیں کہ جن کو بیٹ پکڑنا پاکستانی کوچز نے سکھایا اور ان دونوں ممالک کو بین الاقوامی حیثیت دلوانے میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل تھا، مگر دونوں آج کل ہر لحاظ سے بھارتی بچے بنے ہوئے ہیں اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا، افغانستان کی جانب سے انکار تو ایسے ہوا جیسے کابل دھماکے میں پی سی بی نے خود کش بھیجے ہوں
موجودہ دور کی تمام کرکٹ ڈپلومیسی کی ناکامی کا سہرا صرف اور صرف نجم سیٹھی اور شہریار خان کے سر جاتا ہے مگر کیا المناک صورت حال ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اور سب اچھا کا راگ الاپ کرکے پی سی بی فنڈز کو ذاتی ورلڈ ٹور کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، سپاٹ فکسنگ میں وزارت داخلہ متحرک ہوئی تو چوہدری نثار کے پارے کو وزیراعظم کے ذریعے اتنی خوبصورتی سے نیچے گرا دیا کہ اب وزیر داخلہ سپاٹ فکسنگ اور ان کے منطقی انجام تک پہچانے کا نام تک نہیں لیتے
ہم کو شاید احساس نہیں ہورہا کہ بھارتی بنیا کس چالاکی سے ہمیں ابتدائی طور پر خطے میں تنہا کرنے کو جتا ہے جسمیں وہ کامیاب رہا ہے اب ہماری سرحدیں جن جن ممالک سے ملتی ہیں ان میں محض چائنا ہی ہمارا دوست رہ گیا ہے باقی برادر مسلم ممالک ہم سے ہماری ہی کوتاہیوں اور طرز فرعونیت سے ناراض ہوگئے
پہلے بنگہ دیش اور اب افغانستان کی جانب سے کرکٹ نہ کھیلنے جیسے اعلانات کسی اور ملک میں ہوتے تو وہاں کے سربراہان مملکت نہ صرف ایکشن لیتے بلکہ ایسے نا اہل ٹولے کو چلتا کرتے، مگر یہ ہم سب جانتے ہیں کہ حکومت وقت، نجم سیٹھی اور جس چینل میں وہ بطور اینکر جڑے ہوئے ہیں ، تینوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے یا یوں کہہ لیجیئے کہ تینوں ایک دوسرے کے کانے ہیں – پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا اور اختر رسول اینڈ کمپنی کی چھٹی کروا دی گئی، قومی کرکٹ ٹیم کی بڑے ملکوں کے خلاف کارکردگی ابھی کل کی بات ہے، ویسٹ انڈیز سے جیت کا کریڈٹ ٹیم ممنیجمنٹ کو جاتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ہم کو ویسٹ انڈیز کا مشکور ہونا چاہیے کہ انکی بی بھی نہیں سی ٹیم کے ساتھ ہم کو کھیلنا پڑا،
کرکٹ پاکستانیوں کی واحد تفریح ہے اور یہ تفریح بھی سخت خطرے میں ہے کہ کیونکہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دنیا میں چار پانچ اور دھماکے ہوگئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ملک بھی ہم سے کھیلنے کو تیار نہ ہوں، حکومت وقت نے فوری ایکشن لے نااہل مگر خود سب سے ذیادہ ذہین سمجھنے والوں کو چلتا نہ کیا تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے بند ہو جائیں گے، ہر وقت طیارے اور ہوا میں اڑنے والوں کا احتساب نہ کیا گیا اور ان کو زمین پر نہ لایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہوں کہ آئی پی ایل کے بعد دنیا کی دیگر لیگز میں بھی ہمارے کھلاڑی فارغ نہ کردیے جائیں اور ابھی تک ناکام پالیسیاں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو خطرہ سا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں اہم ممالک کے کھلاڑی پی ایس ایل میں کھیلنے سے انکار نہ کردیں اور اگر بھارتی چالوں کو ناکام کرنے کا اہل فرد چیئرمین پی سی بی نہ لگایا گیا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں سپاٹ فکسنگ کے علاوہ دیگر کئی خطرناک اقدام پی ایس ایل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں
آخر میں چند لفظوں میں سیٹھی صاحب کو کہنا چاہوں گا کہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی کے بھارت ایک بڑا ملک ہے اور ہم سے ہر شعبے میں کہیں طاقتور ہے، آپ بھارت کے باپ کو چھوڑیں اور بی سی سی آئی سے منت ترلے سے کام چلا سکتے ہیں تو اچھے کی امید ہے ورنہ بھارت تو دور اس کے دوبیٹے بنگلہ دیش اور افغانستان ہی ہمیں اس شرمندگی سے دوچار کیے رکھیں گے کہ ہمارے پاس وضاحتوں اور پریس کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہ بچے گا، اگر آپ ناکام ہوچکے ہیں تو اپنی سینکڑوں چڑیوں میں سے کسی ایک کو پاکستان کرکٹ اور اس کے بہتر مستقبل پر تعینات کردیں
اپنی رائے کا اظہار کریں