More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس
Latest news
اپ ڈیٹ پاکستان کرکٹ ٹیم ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہیڈنگلے لیڈز میں پریکٹس سیشن جاری۔سیشن تین گھنٹے جاری رہے گا تمام کھلاڑی کوچز کی نگرانی میں بیٹنگ بولنگ اور فیلڈنگ کی پریکٹس میں حصہ لیں گے۔ کل پاکستان ٹیم صبح نو سے دوپہر بارہ بجے تک پریکٹس سیشن کرے گی۔ 19 مئی کو پاکستان ٹیم آرام کرے گی اس روز پریکٹس سیشن نہیں ہوگا۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل22 مئی کو ہیڈنگلے لیڈز میں کھیلا جائے گا۔ ٹکرز پی ایس ایل 2025۔ پی سی بی اور پی ایس ایل فرنچائز مالکان کے اجلاس مں ایچ بی ایل پی ایس ایل 2025 کی ونڈو کو حتمی شکل دینے سے متعلق تبادلہ خیال ۔ پی سی بی کی جانب سے فرنچائز مالکان کو کئی برس تک marquee پلیئرز پر دستخط کرنے میں مدد کی پیشکش ۔ ایچ بی ایل پی ایس ایل 2025 چھ ٹیموں کا آخری ایونٹ ہو گا۔2026 میں دو ٹیمیں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ پی سی بی کا خیال ہے کہ ایچ بی ایل پی ایس ایل اور آئی پی ایل کے اپریل/ مئی ونڈوز میں ایک ساتھ رہنے سے کھیل، کھلاڑیوں اور شائقین کو فائدہ اور پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔ پی سی بی اور فرنچائز مالکان کے درمیان ہر فرنچائز کے ایک ایک کھلاڑی کو براہ راست سائن کرنے کے آپشن پر بھی تبادلہ خیال یہ marquee پلیئر آفر کے علاوہ ہوگا جس میں پی سی بی فرنچائز مالکان کو سپورٹ کرے گا۔ پی سی بی پشاور اور کوئٹہ کو ایچ بی ایل پی ایس ایل کے ممکنہ وینیوز کے طور پر غور کرے گا اور یہ دونوں شہروں کا ماحول سازگار اور معاون ہونے سے مشروط ہوگا۔ پشاور اور کوئٹہ کو 2024-25 کے سیزن میں ڈومیسٹک میچز دے کر پاکستان کرکٹ کیلنڈر میں واپس لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔محسن نقوی۔ ٹکرز شاہین شاہ آفریدی پوڈکاسٹ موڈ بھی اچھا اور فٹنس بھی اچھی ہے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتیں گے ۔ شاہین شاہ آفریدی۔ مکمل فٹ ہوں اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پوری طرح تیار ہوں ۔ شاہین شاہ آفریدی۔ گیری کرسٹن نے مجھ سے کہا ″ آپ کی شرٹ کے پیچھے جو نام ہے اس کے لیے نہیں بلکہ شرٹ کے آگے سینے پر جو نام ہے اس کے لیے کھیلنا ہے″۔ شاہین آفریدی۔ ٹیم کا ماحول بہت اچھا ہے، ہمارا کام قوم کو خوشیاں دینا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف پرفارمنس یادگار ہے۔ شاہین شاہ آفریدی۔ ٹکرز پاکستان کرکٹ ٹیم ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ڈبلن سے لیڈز پہنچ گئی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کل ایک روز آرام کے بعد جعمہ سے اپنی ٹریننگ کا آغاز کرے گی۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 22 مئی کو ہیڈنگلے لیڈز میں کھیلا جائے گا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے آئرلینڈ کے خلاف تین میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز دو ایک سے جیتی ہے۔ ٹکرز بابراعظم۔ آئرلینڈ کے خلاف سیریز سے کارکردگی میں بہتری آئی ۔ بابراعظم۔ پہلے میچ کے بعد ٹیم کی بیٹنگ میں کافی بہتری آئی ہے۔ بابراعظم۔ انفرادی کارکردگی میں رضوان اور فخر نمایاں رہے ۔ بابراعظم ۔ لوئر آرڈر میں افتخار اور اعظم خان کی بیٹنگ خوش آئند ہے۔ بابراعظم۔ آنے والی سیریز میں بھی آپ کو مثبت ارادے نظر آئیں گے۔ بابراعظم۔ بولنگ میں پہلے میچ کے بعد سینئر بولرز نے ذمہ داری لی ۔ بابراعظم۔ عماد وسیم مشکل صورتحال میں بہت اچھی بولنگ کررہے ہیں۔بابراعظم جو بھی پلان ہے اس پر اب عمل درآمد ہورہا ہے۔ بابراعظم۔ کوشش ہوگی کہ انگلینڈ کے خلاف اسی مومینٹم کو برقرار رکھیں۔ بابراعظم۔ انگلینڈ کے خلاف اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ بابراعظم۔ آئرلینڈ کے خلاف تیسرے ٹی ٹوئنٹی میچ اور سیریز میں جیت ویلڈن ۔۔ چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا کھلاڑیوں کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار سیریز جیتنے پر پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ محسن نقوی کھلاڑیوں نے بلے بازی ۔ پاولنگ اور فیلڈنگ میں بہترین کارکردگی دکھائی ۔ محسن نقوی قومی کھلاڑیوں نے ٹیم ورک کا مظاہرہ کرکے سیریز جیتی۔ محسن نقوی میرا یقین ہے کہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہمیشہ جیت ہی کی صورت میں ملتا ہے۔ محسن نقوی امید ہے کہ انگلینڈ میں فتوحات کا تسلسل برقرار رکھے گی۔ محسن نقوی قومی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف میچوں میں بھی بہترین کھیل کا مظاہرہ کرے گی۔ محسن نقوی ٹکرز گیری کرسٹن۔ وائٹ بال ہیڈ کوچ گیری کرسٹن 19 مئی کو پاکستان ٹیم میں شمولیت اختیار کریں گے۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 22 مئی کو ہیڈنگلے لیڈز میں کھیلا جائے گا۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز کے بعد پاکستان ٹیم آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ لے گی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کرنے کے لیے ُپرجوش ہوں۔ گیری کرسٹن۔ نئی منیجمنٹ اور تمام کھلاڑی ٹھوس نتائج دینے کے لیے ُپرعزم ہیں۔ گیری کرسٹن۔ پاکستان ٹیم کے سپورٹ اسٹاف میں سائمن ہیلمٹ ( فیلڈنگ کوچ ) اور ڈیوڈ ریڈ ( مینٹل پرفارمنس کوچ ) کی شمولیت۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی تیاریاں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کی ڈبلن میں قومی کھلاڑیوں سے ملاقات دو گھنٹے طویل ملاقات اور حکمت عملی پر تفصیلی مشاورت چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھایا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے کھلاڑیوں کو محنت۔ جذبے اور پروفیشنل اپروچ کے ساتھ کھیلنے کی تلقین کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ یکسر مختلف اور جارحانہ اپروچ کی حامل ہے۔ محسن نقوی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے جدید و نئے انداز کے مطابق کھیل کر ہی جیت ممکن ہو گی۔ محسن نقوی کمرے میں بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے لیکن اصل امتحان میدان میں ہوتا ہے۔ جہاں پرفارمنس نظر آنی چاہیے۔ محسن نقوی بلاشبہ تمام کھلاڑی باصلاحیت ۔ پروفیشنل اور بہترین ہیں۔ محسن نقوی قومی ٹیم کا باولنگ اٹیک شاندار ہے۔ محسن نقوی فیلڈنگ پر بہت توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مخالف ٹیم کو کوئی بھی چانس نہ مل سکے ۔ محسن نقوی کھلاڑی پاکستان کیلئے امید ہیں اور آپ نے قوم کی توقعات پر پورااترناہے۔ محسن نقوی فتح کے لیے ٹیم ورک بنیادی چیز ہے۔ محسن نقوی 11 کھلاڑی ایک ہوکرپاکستان کے لئے جان لڑا دیں گے تو کامیابی قدم چومے گی۔ محسن نقوی پاکستانی قوم کرکٹ سے محبت کرتی ہے اور قوم کو اپنے کھلاڑیوں سے امیدیں ہیں۔ محسن نقوی آخری بال تک فائٹ کریں۔ مقابلہ ہوتا دکھائی دینا چاہیے۔ محسن نقوی آئرلینڈ سے پہلے میچ میں شکست کو کوئی بھی قبول نہیں کر رہا۔ محسن نقوی آئرلینڈ اور انگلینڈ کے بعد اصل امتحان ورلڈکپ ہے۔ محسن نقوی چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی ڈبلن پہنچ گئے ٹکرز ۔ محمد عامر۔ فاسٹ بولر محمد عامر جمعہ کی صبح ساڑھے تین بجے کی فلائٹ سے ڈبلن ، آئرلینڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔ محمد عامر جمعہ کو ڈبلن میں ٹیم کو جوائن کرلیں گے لیکن پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ان کے سلیکشن پر غور کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ محمد عامر اتوار اور منگل کو کھیلے جانے والے دوسرے اور تیسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے لیے دستیاب ہوں گے۔ محمد عامر کی روانگی دیر سے ویزا جاری ہونے کے سبب تاخیر کا شکار ہوئی۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کی کوششوں سے محمد عامر کا ویزا جاری ہوا۔ آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کے بعد پاکستان ٹیم 22 ۔ 25 ۔ 28 اور 30 مئی کو کھیلے جانے والے چار ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے لیے 15 مئی کو لیڈز پہنچے گی۔

ہاکی – بتا کیا چال ہے تیرا؟

ہاکی – بتا کیا چال ہے تیرا؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پیارے بچوں کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان کا قومی کھیل کون سا ہے؟
کرکٹ کیونکہ ایک دن خاتوں اینکر کہہ رہی تھیں کہ وزیر اعظم پاکستان خدارا اسے بچا لیں کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل ہے، اس لیے کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل ہے

ہائے ہائے میرے عزیز یہیں سے تو پاکستان کے کھیلوں کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جب سپورٹس میڈیا میں کھیل نا آشنا لوگوں کی  بھر مار نے ڈوبتی نیہ میں پتھر رکھنے والا کام کیا، میں نے ہاکی پر لکھنے کی کوشش کبھی اس لیے نہیں کہ ہمارے کچھ سینیئر بلکہ بزرگ صحافیوں کو یہ فوبیا ہوچکا ہے کہ وہ پیچھے ہٹ گئے تو  قومی کھیل جی ہاں پیارے بچوں ہاکی ہمارا قومی ہے کی رہی سہی شان بھی جاتی رہے گی، کنویں کےمینڈک  یہ لکھاری بے دکان  – پاکستان ہاکی فیڈریشن میں ہر آنے والے نئَے عہدیدار کو ایسے بوتل میں اتارتے ہیں کہ وہ اپنے سوا کچھ اور نظر آنے ہی نہیں دیتے اور خود کو ہاکی کا نور خان متصور کیے ایک ہی دائرے میں جھومے رہتے ہیں، جی جی بالکل اسی طرح جس کرکٹ میں سبحان احمد اینڈ کمپنی کا فن چلتا ہے

تو پیارے بچوں کیونکہ میں آج کل خاصے دنوں سے نشتر پارک یعنی کھیل کے کنویں سے خاصا دور رہوں اور روایتی صحافت کے حامل افراد سے کنارہ کش سا ہوں اس لیے سوچا آپ کو پاکستان ہاکی کے بارے چکھ بتایا جائے

ننھے بچوں میں آج کی تحریر کو اسی دور پر مرکوز رکھوں گا کہ جس کا میں چشم دید گواہ رہا، اس سے پہلے تو پاکستان ہاکی کی کسی ٹورنامنٹ میں شرکت گولڈ میڈیل یقینی کے طور پر پہلے ہی ذہن نشین کر لی جاتی تھی، ہاں یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں چاندی کے تمغے کا آنا بری کارکردگی کا حامل سمجھا جاتا تھا

میری ہوش میں پاکستان نے 1982 کے بعد 1994 میں ورلڈکپ جیتا جب اس کے کپتان شہباز سینیئر  تھے جی جی جو آجکل سیکریٹری پی ایچ ایف بھی ہیں، اس سے پہلے کی صورت حال سمجھانے کے لیے یہ چارٹ دیکھیں تاکہ آپ کو سمجھانے میں آسانی ہو کہ ہمارے قومی کھیل کا معیار واقعی کبھی قومی کھیل والا ہوتا تھا

hockey

اس چارٹ کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ کے امریکہ اولمپکس کی فتح کے بعد 1992 میں پاکستان نے تیسری پوزشین حاصل کی جو یہ نشاندہی کرتی ہے کہ اس وقت کی ٹیم یعنی شہباز سینیئر الیون نے ٹھان لی کہ اس ڈوبتی نیہ کو اب سہارا نہ دیا گیا تو نتائج بھیانک ہونگے اور پھر وہی ہوا اس باضمیر ٹیم نے جان ماری اور 1994 کا ورلڈکپ پاکستان کے نام کر دیا، با لکل سہی یہ وہ سال ہے جب پاکستان ہاکی کے علاوہ سنوکر، سکواش اور پاکستان کا مقبول ترین کھیل کرکٹ میں ہم فاتح عالم بنے جو بزات خود ایک ورلڈ ریکارڈ بنا، پیارے بچو آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا میں آٹھ کھیلوں کے ورلڈکپ ہیں جنمیں سے چار 1994 میں ہمارے پاس تھے

pizap-com14942833472571

ہونہارو،،،،، یہ وہ چہرہ کہ جس نے اس دور کے تمام اہم کھیلوں اور پی آئی اے کے امور سنبھالے اور پاکستان کسی بھی شعبے میں دو نمبر پر آنا اپنی ہتک سمجھتا تھا، یہی نور خان ہیں کہ جب پی آئی اے کو دنیا کی ایک  نمبر ایئرلائن سمجھا جاتا تھا، آج بھی پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ان کے اعزاز میں تقریبات اور ٹورنامنٹس کا انعقاد تو کرتی ہے مگر ان کے رہنما اصولوں کو ان کے چھوڑے تمام ادارے بھول چکے، اب تو لوٹ کا ایک بازار گرم سجا ہے مصر کے بازار کی طرح

میرے مشاہدے کے مطابق ہاکی کی تباہی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا  جب کرکٹ کی طرح اس کھیل کے ہیروز نے بھی اپنے اعزازات کے بدلے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کمان بھی آہستہ آہستہ اپنے کنٹرول میں لینا شروع کردی اور خود کو نور خان سے بڑا منیجر سمجھنے لگے اور ان کو یہ وہم پاکستان کے مفاد پرست میڈیا نے ڈالا کہ جہاں آج کل کم از کم پندرہ سال سے حکمرانی ہے اور وہ ہمیں وہ نہیں دکھاتے کہ جو ان کا فرض ہے بلکہ وہ دکھاتے ہیں کہ جس کا ان پر قرض ہے یعنی کچھ دو اور سب کیے دھرے پر آنکھیں بند رکھو، بلکہ اس پر ایک ٹوٹا پھوٹا ذاتی شعر بھی کہا کرتا ہوں کہ
صحافت صحیفے سے نکلی ہے – ——-مگر ہم سمجھ بیٹھے وظیفے سے نکلی ہے

میں نے لاہور میں کھیلوں کی صحافت 1909 میں نیوز ون ٹی وی سے شروع کی تو ہاکی پر چار چہروں کی حکمرانی دیکھی، جی ہاں اختر رسول، قاسم ضیاء، آصف باجوہ اور رانا مجاہد، مجھے ہر روز یہ محسوس ہوتا رہا کہ پاکستان کی ہاکی درست سمت میں جا رہی ہے اور اب کے سال پاکستان اپنا ہدف اولمپکس اور ورلڈکپ میں جگی بنالے گا، جی ہاں پیارے بچو اور پرنٹ شدہ چارٹ دیکھو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ممالک کو ہم نے ہاکی پکڑنی سکھائی اب  انہی ممالک سے جیتنا دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے، نتائج کچھ اور ہونا اور صبح اخبار اور شام ٹی وی پر یکسر مختلف خبر دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے اور جب دیگ میں سر ڈالا تو پتہ چلا کہ دال ہی جل چکی ہے اور انتہائی حدت کی وحہ سے دیگ میں بھی سوراخ ہوچکا ہے کہ جو آہستہ آہستہ دیگ کے نیچے جلی آگ کے لیے بھی ایندھن کا سبب بن رہی ہے، ان دنوں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف نعرہ تکبیر محض ایک چہرے کے ذمے تھا اور وہ ہیں اولمپیئن نوید عالم کہ جو رو رو کر ہاکی کا تباہی کا رونا روتے تھے، مگر صبح یا تو وہ خبر ٹی وی پہ آتی ہی نہیں تھی یا اخبار کی ایک نکڑ میں چھوٹی سی جگہ پر لگی ہوتی تھی، ہاں پی ایچ ایف جن میڈیا افراد کو نوازشوں سے محروم کیے ہوتی تھی وہ ایک دن بڑی خبر کے طور پر دیتے اور پھر وہی باجوہ صاحب واہ یا پھر کیا بات ہے چوہدری صاحب اینڈ رانا صاحب،،،،،،آپ لوگ تو چھا گئے اور پھر میں نے ان کو دسویں پوزیشن لے کر بھی کرسیوں پر فرعونی انداز میں جھومتے دیکھا ہے،،، اور غلام ذہن صحافیوں کو گالیاں پڑتی بھی دیکھیں ہیں، ریاست کا چھوتھا ستون یعنی صحافت کے نمائندوں کو کندھے دباتے اور اچھی خبر پر باقاعدہ کندے پر شاباش بھی لیتے دیکھا ہے
گورا کہتا ہے کہ

if you cant beat them then join them

یعنی ان سے جیت نہیں سکتے تو ان کا حصہ بن جاو، لہذا نیوز ون اور ڈان ٹی وی کی جانب سے اس نظام کا حصہ رہا مگر مناسب وقت پر مناسب نشاندہی بھی کرتا رہا اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ نو سالوں سے کسی بھی کھیل کے ادارے اور اہل افراد کے قریب بیٹھنے سے محروم رہا، مگر اپنی ذمہ داری سے دوری کبھی نہ دیکھی نہ آئندہ دیکھنے کا ارادہ ہے، ہاں سابق اولمپیئن توقیر ڈار سے قابل فخر دوستی ہے کہ جو چاہے بھیک مانگنی پڑے ہاکی کی اپنے حصے کی خدمت میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ہاکی ٹیم میں اکثر وہی اچھا ہوتا جسکا تعلق ڈار اکیڈیمی سے ہوتا ہے

موجودہ پی ایچ ایف کے عہدیداران کا دعوی ہے کہ سابق دور یعنی اختر رسول اینڈ کمپنی کو حکومت کی جانب سے 110 ارب روپے جی ہاں 110 ارب روپے ملے، مگر سیاہ شکست پر سب ایک دوسرے کو اس دور میں بر طرف کرتے رہے اور پھر معاہدے کے تحت منظر میں آتے رہے، کون سے ماں باپ ہیں کہ جو اپنی اولاد بیچ کر اپنا مستقبل بہتر بناتے ہے؟

مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ دس سال جو میں نے دیکھے ہیں وہ ایسے ہی ہیں، ہاکی کا سارا نظام صرف اور صرف سابق ہاکی اولمپیئنز نے چلایا اور کسی ٹیکنو کریٹ کو نزدیک لگنے بھی نہ دیا اور ہاکی کو اپنی اولاد کہنے والوں کو ہر دن اپنے ہی ہاتھوں سے لوٹتے اکثر دیکھا اور اولاد کے مستقبل کی تباہی کا سارا سودا میڈیا سے کیا، جنہوں نے کبھی لاہور اور اپنے گاوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا تھا ان کو وہ وہ ممالک ایک دفعہ کی بجائے کئی کئی بار دکھا کر اور ہاتھ گرم کرکے لوٹ مار کا بازار انتہائی دلیری سے لوٹتے رہے، ایسے لوٹتے رہے کہ جیسے یہ اربوں روپے ان کو وراثت میں ملے ہیں، ہاکی اور کھلاڑی ان کی رعایا ہیں

if you cant beat them then join them

والا فارمولا شہباز سینیئر نے بھی اپنایا، سابق پی ایچ ایف کی پی سی بی والی یہ چال رہی ہے کہ بدترین شکست پر ایسے چہرے اپنے نظام لاو کہ بھولی قوم بول اٹھے کہ اب ہمارا یہ کھیل نوے دنوں میں ہی ٹھیک ہوجائے گا، مگر جوں جوں 2018 کے الیکشن آتے جا رہے ہیں، حکومت وقت کو کچھ وقت ملنا شروع ہوگیا ہے کہ کھیلوں کی تباہی روک کر بہتری کا سامان کیا جائے، مسلسل شرمناک شکستوں پر حکومت نے کروٹ لی اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی  کے ذریعے تحقیقات کروائی گئیں اور قاسم ضیاء اور ان کی کابینہ کو گھر بھیج دیا گیا اور ہاکی کی کمان سابق برگیڈیئر خالد کھوکھر اور شہباز سینیئر کو سونپ دی گئی

اب ہاکی کا تیر کمان اور ہائی کمان شہباز سینیئر کے ہاتھوں میں ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر اب بھی اگر ہاکی میں کھویا ہوا مقام واپس نہ ملا تو ہاکی کا ذکر نصابوں اور تحریروں میں پڑھا جا سکے گا

آو پیارے بچو، شہباز سینیئر کو کچھ پیغامات دیتے ہیں، جی جی جوانوں کہ اسی شہباز سینیئر سے کہ 1994 میں آخری بار بطور کھلاڑی ورلڈکپ پاکستان لائے،

تو جناب شہباز سینیئر صاحب سب سے پہلے تو ہم آپ کے پلان کے معترف ہیں کہ جس طرح آپ پی ایچ ایف کا حصہ بنے اور اب لگ بھگ ایک سال سے ہاکی آپ کے کنٹرول میں ہے، آپ کو اپنے ناقدین کو بتانا تو ہے کہ اس ایک سال میں آپ نے ہاکی بہتری کا جو پلان بنایا اس پر کتنے فیصد کام شروع چکا ہے؟ ابھی تک قومی و جونیئر ٹیموں نے بیرون ملک جا کر وہاں کی قومی و مقامی ٹیموں سے مقابلے کیے،،،ان کے نتائج سے آپ مطمئن ہیں؟ اور کیا اس طرز کے دوروں سے ہاکی کا گراف اوپر جائے گا؟ شہر شہر، سکول سکول، غرض گراس روٹ لیول پر آپ نے ہاکی پہنچانے کا جس سلسلے کا اعلان کر رکھا ہے اس میں کتنے فیصد منصوبہ جات شروع ہوچکے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کیا کیا کرکے قومی کھیل کو آئندہ دو سالوں میں ایشین چیمپیئن اور پانچ سالوں میں دنیا کی چار بہترین ٹیموں میں لانا ہے،،،،،،یہ تو میں بھی مانتا ہوں کہ گراس روٹ لیول پر انقلابی کام شروع کرکے ہی دو سال میں ایشین چیمپئن، پانچ سال میں چار بہترین ٹیموں میں تو آیا جاسکتا ہے مگر دس سال مسلسل کام کے بعد ہی وکٹری سٹینڈ پر براجمان ہوا جا سکتا ہے، آسٹریلیا، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، بلجیئم، انگلینڈ جیسی ٹیموں کو پچھاڑنے کا سلسلہ شروع تب ہی ممکن ہوگا کہ جب ماڈرن ایج ہاکی کی ایک ایک مانگ کی شروعات ٹھیک ہائی سکول سے شروع کریں گے اور  کم از کم پچاس لیول تھری اینڈ فور کوچز تیار کیے بنا ہاکی میں جیت ایک دعوی یا نعرہ تو سکتا ہے، حقیقت نہیں ، سکول کی سطح پر ہر کھلاڑی کے لیے ہاکی کھیلنا لازم قرار دیا جانا چاہیے اور اس کے پچاس یا سو نمبر رکھے جانے چاہییں، اور فاتح ٹیم ٹیمیں براہ راست پی ایچ ایف  منسلک ہونی چاہییں اور ان تمام کھلاڑیوں کی ہر طرح کی معاونت پی ایچ ایف کے ذمے قرار دی جانی چاہیے
شہباز سینیئر صاحب اس دور کے لیجنڈ ہیں کہ جب ہاکی کی فتوحات پرخصوصی سکے اور ڈاک  ٹکٹیں  چھپا کرتی تھیں مگر اسکے بعد ڈاک ٹکٹوں کی بجائے پی ایچ ایف اور ان کے اہل خانہ کے بیرونی ممالک کی سیروں کی ٹکٹوں پر ہی خرچ ہوئے

مجھے پوری امید ہے کہ حکومتی تبدیلی سے بھی آپ کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا اور آپ کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع دیا جائے گا مگر ان پانچ سالوں کے بعد قوم آپ سے تقاضا کرے گی جس طرح بارہ سال بعد آپ ورلڈکپ پاکستان لائے تھے اسی طرح آپ کے عہد میں پچیس سال بعد کم از کم قوم کے ذہنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے گا کہ اب پاکستان ورلڈکپ اور اولمپکس فاتح کی ریس میں مناسب مقام ہے

 ایسے افراد کو آگے لائیں گے جو قومی کھیل کی بہتری کو کوشاں رہتے ہیں، کوچنگ کے معیار کو ورلڈکلاس بنائیں گے ، کھلاڑیوں کی بارات جمع کرنے کی بجائے اہل ترین کم از کم پچاس کھلاڑیوں کو قومی دھارے میں شریک کرکے ان پر سب کچھ جھونک دیں

امید ہے کہ سیکریٹری پی ایچ ایف اپنے صلاح گیروں کی لسٹ پر نظر دوڑائیں گے کیونکہ ان کے گرد ذیادہ تر صلاح گیر وہ ہیں جو راہ گیر ہیں اور اس طرح کے صلاح گیر تو حکومتوں کی تباہی کا باعث بن جایا کرتے ہیں آپ تو ایک چھوٹا سے کھیل کا ادارچلا رہے ہیں

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں