کرکٹ کرپشن – قربانی کے بکرے بچانے کو سیاسی گھوڑے متحرک
پی ایس ایل ٹو میں سپاٹ فکسنگ کیس،کرکٹرز بورڈ پر سیاسی پریشر بڑھانے لگے
اب کی بار تاریخ اپنی تحریر بدلے گی یا جوں کی توں دہرائی جائے گی؟
پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کے حالیہ واقعات نئے نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی قومی کرکٹ میچ فکسنگ کے الزمات سے داغدار ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کا سب سے بڑا شور نوے کی دہائی میں مچا جب انیس چھیانوے کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل جو کہ بھارت کے خلاف کھیلا گیااور پھر انیس ننانوے ورلڈ کپ کا آسٹریلیا کے خلاف فائنل میچ کس کو بھول سکتا ہے جب ٹورنامنٹ کی ہاٹ فیورٹ ٹیم محض ایک سو بتیس رنز پر آؤٹ ہوگئی۔۔جسٹس قیوم انکوائری کمیشن نے 9 ستمبر 1998 کو اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ کمیشن نے 90 کی دہائی اور اس سے پہلے کھیلے گئے میچز میں ہونیوالی فکسنگ سے متعلق تحقیقات کیں۔ جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک، عطاالرحمان، مشتاق احمد، وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انوراور انضمام الحق کو کسی نا کسی طرح ملوث پایا گیا۔ کمیشن نے تو رپورٹ پیش کر دی تاہم کھلاڑیوں کوسیاسی اثر و رسوخ کے باعث بچا لیا گیا اور معمولی جرمانوں سے کام چلایا گیا۔ آج تک جب بھی سپاٹ یا میچ فکسنگ کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو حوالہ دیا جاتا ہے کہ اگر جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کر لیا جاتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔
پاکستانی کرکٹ آج پھر ایک بار ماضی کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ سپاٹ فکسنگ کے الزامات ہیں اور سپاٹ فکسنگ کے الزام میں معطل کرکٹرز شاہ زیب حسن اور شرجیل خان نے حسب دستور بورڈ پر سیاسی دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ شاہ زیب حسن کا تعلق تو کراچی سے ہے پر ذرائع کے مطابق وہ نہ صرف ایک سیاسی شخصیت کے قریبی رشتہ دار ہیں بلکہ ایک اثر ورسوخ کی حامل سیاسی شخصیت کے داماد بھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق شاہ زیب کی اہلیہ برٹش نیشنل ہیں اور برطانیہ میں خود بھی وکیل ہیں۔ اسی لئے اسی فیملی کے کہنے پہ موجودہ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کے صاحبزادے کاشف رجوانہ شاہ زیب حسن کا کیس لڑ رہے ہیں۔ اپنے اس طاقتور سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر شاہ زیب حسن بورڈ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
دوسری جانب شرجیل خان بھی کوئی گئے گزرے کھلاڑی نہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی سندھ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ شرجیل خان کی خلاصی کیلئے پیپلزپارٹی کے اسلام الدین شیخ، مولابخش چانڈیو اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی زور ڈال رہے ہیں۔ محترم اپوزیشن لیڈر تو اسے صوبائی تعصب کا لبادہ بھی اوڑھا چکے ہیں، اپنے ایک ٹی وی بیان میں انہوں نے شرجیل خان کیخلاف کارروائی کو تخت لاہور کی زیادتی سے تشبیہہ دی۔
سپاٹ فکسنگ کے تیسرے ملزم ،، کرکٹر خالد لطیف ہیں۔ موصوف پہلے ہی پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ کرنل ر محمد اعظم پر یہ کہہ کر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں کہ انہوں نے جرم تسلیم کرنے کیلئے ان پر دباؤ ڈالا ہے۔ خالد لطیف کے مطابق انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا اور نہ ہی بورڈ کے پاس کوئی واضح ثبوت موجود ہے۔
پی سی بی کی طرف سے بنائے جانے والے ٹربیونل کی سربراہی جسٹس ر اصغر حیدر کر رہے ہیں۔ اصغر حیدر سابق چئیرمین پی سی بی جنرل ر توقیر ضیا کے ساتھ پی سی بی کے لیگل ڈیپارٹمینٹ میں کام کرچکے ہیں۔ ٹربیونل کے دوسرے رکن پی سی بی کے سابق چئیرمین توقیر ضیا جبکہ تیسرے رکن سابق ٹیسٹ کرکٹر وسیم باری ہیں۔ کبھی چارج شیٹس،کبھی تردید تو کبھی کھلاڑیوں کی جانب سے ٹربیونل کی حیثیت کو چیلنج ،،، لیکن فکسنگ کیس کی سماعت جاری ہے۔ دیکھنا ہے کہ اس کیس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ اب کی بار تاریخ اپنی تحریر بدلے گی یا جوں کی توں دہرائی جائے گی۔ کیونکہ ہمارے ماضی میں ایسے واقعات کے کوئی سبق آموز نتائج کبھی برآمد نہیں ہوئے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں