کنگسٹن – بیٹنگ کنگ کو سلامی دینے کو بے قرار
سرفراز احمد کی قیادت میں گرین شرٹس نے ٹی ٹونٹی اور ون ڈے میں کالی آندھیوں کے خلاف توقعات کے عین مطابق فتح سمیٹی اور کپتان کے لیے تیسرا دروازہ یعنی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی بھی کھلنے کو ہے
اب باری آتی ہے وائٹ شرٹس کی وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف تاریخی ٹیسٹ سیریز شروع ہوا چاہتی ہے، کپتان مصباح الحق نے ایسے تو کئی ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کا نام روشن کیا اور بارہا لکھ چکا ہوں کہ ان کو جیسی بھی سولہ یا گیارہ رکنی ٹیم دی گئی انہوں نے محض ہاتھ گھما کر یا کندھا ہلا کر قبول کر لی جس کی تازہ مثال راحت علی کو طلب کیے جانے کے باوجود سلیکشن کمیٹی کی جانب سے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ راحت علی کی کارکردگی اچھی نہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہر فارمیٹ کے قیمتی ترین باولرز ٹیم کے ساتھ ہیں نتائج کچھ بھی ہوں ہماری ہر سلیکشن کمیٹی ان باولرز کی ریورس سونگ کی معترف نظر آئی
ایک مدت سے پاکستان کرکٹ کو دو کھلاڑی کانٹے کی طرح چبھ رہے تھے، جی جی مصباح الحق اور یونس خان، جی وہی یونس خان کہ جسکی قیادت میں پاکستان نے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیتا اور وہی مصباح الحق جس نے اپنے کیریئر کے اختتام پر پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن دیکھنا نصیب کیا، اپنے ملک میں ایک بھی ٹیسٹ میچ کھیلے بنا جس دن کسی بھی ملک کا کوئی بھی کپتان یہ کارنامہ کر دکھائے گا تو اجرتی حضرات مجھے اطلاع ضرور دیں
کنگسٹن گراونڈ مجھے یقین ہے کہ وہ مناظر دیکھے گا کہ جب یونس خان محض مزید تئیس رنز بنا کر دس ہزار رنز بنانے کا ٹیکہ بھی اپنے ماتھے پر سجا لیں گے اور ماسٹر بلے باز کے دونوں ہاتھ فاتحانہ انداز میں فضا میں بھی جائِں گے اور ماتھا زمین پر بھی اور یوں کانٹے کی طرح چھبنے والا یونس خان دنیائے کرکٹ کی کتاب میں اپنا نام مہان بلے بازوں میں لکھوانے میں فتحیاب ہونگےاور یونس خان کے لیے کھڑے ہوکر تالیاں بجانے والوں میں باب وولمر بھی لازمی شریک ہونگے
دس ہزار رنز یونس خان بہت پہلے بنا کر کب کے پاکستان کرکٹ کو خیر باد کہہ چکے ہوتے، مگر پاکستانی شائقین کرکٹ کو ان تمام حالات اور صعوبتوں کا پتہ ہے کہ جنکا سامنا یونس خان شاید ہی کسی دن نہ کیا ہو، کپتان بنا تو وہ محاز آرائی دیکھنے میں آئی کہ بات قران پاک پر حلف پر آ گئی کہ اس شریف انسان کی قیادت میں نہیں کھیلنا اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ حلف دینے والوں کو وہ وہ وقتا فوقتا شرمندگیاں دیکھنا پڑیں کہ جنکی خفت اب تک روازنہ کی یادوں میں شامل ہے
مجھے لاہور میں سپورٹس جرنلزم کرتے ہوئے دس سال مکمل ہونے کو ہیں اور میں چشم دید گواہ ہوں کہ یونس خان ابتداء میں پاکستانی میڈیا کے ساتھ بہت ہی تعاون اور دوستانہ طریقے سے ملنے والوں میں تھے مگر وقت کے ساتھ یونس خان اور میڈیا میں دیوار اونچی ہوتی چلی گئی کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ذیادہ تر صحافت کسی دوسرے کے اکسانے پر کسی کا دل دکھانے پر معمور ہے اور اس کے ماہر صحافی اسے اپنی بڑی کامیابی گردانتے ہیں
مجھے فخر ہے کہ کرکٹ جنکا احترام کرتی ہے وہ کرکٹر میرا احترام کرتے ہیں، کسی محفل میں صحافیوں کا ذکر چل نکلے تو میرا نام جزباتی مگر کھرے انسان کے طور پر لیا جاتا ہے، مجھے اطمینان ہے کہ میں نے آج تک کسی کے اشارے پر نہیں ناچا کیونکہ وڑائچ تو خود نچوانے کا فن خوب جانتے ہیں وہ چاہے بندر ہو یا کوئی بد عنوان فرد
آج کی اس چھوٹی سی تحریر سے محض آپ کو یاد کروانا تھا کہ یونس خان کے لیے تالیاں بجانے کے لیے آپ بھی رہیں تیار چاہے ٹی وی کے سامنے کھڑے ہوکر بجانی پڑیں، کیونکہ یقین رکھیں کہ مصباح الحق اور یونس خان کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ ہماری کرکٹ نے کیا کیا کھو دیا؟ کیا کیا کھو دیا کا ذکر پھر سہی، ہاں جو گروز دعوی کرتے ہیں کہ مصباح اور یونس کے متبادل تیار ہیں تو ان سے ہر موقع پر پوچھا کروں گا کہ وہ متبادل کہاں ہیں؟ ان کے جواب بھی ابھی سے پتہ ہیں کہ کیا ہونگے
ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے نتائج کچھ بھی ہوں
مگر ایک بات پورا زور لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ
یونس خان اور مصباح الحق
ہمیں تم سے پیار ہے
ہاں ایک خواہش ہے کہ یونس خان جب دس ہزار رنز مکمل کریں تو نان سٹرائیکر اینڈ پر مصباح الحق ہوں کیونکہ اگر یونس خان کو اس موقع پر گلے لگانے کا کوئی اصل حقدار ہے تو وہ کپتان مصباح الحق ہی ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں