More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

کیا بابر اعظم کے والد مسلح ہوکر چیف سلیکٹر کے گھر پہنچ گئے ؟

کیا بابر اعظم کے والد مسلح ہوکر چیف سلیکٹر کے گھر پہنچ گئے ؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

کھیلوں کی دنیا میں جذباتیت اور تنقید کا ایک طویل سفر ہے، جہاں کھلاڑیوں کے کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں پر بھی عوامی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دو واقعات نے سوشل میڈیا پر بحث کا نیا باب کھول دیا ہے: ایک طرف یووراج سنگھ کے والد اور کرکٹ لیجنڈ کپل دیو کے گھر جانے والے واقعے پر ردعمل، تو دوسری جانب پاکستانی کپتان بابر اعظم کے والد کے بیانات پر اٹھنے والے سوالات۔ سوال یہ ہے کہ اگر کپل دیو جیسے عظیم کھلاڑی کو گھر تک “مارنے” کی دھمکیوں کا سامنا ہو سکتا ہے، تو پھر بابر کے والد کی باتوں پر اتنی تشویش کیوں؟

پہلے واقعے کی طرف نظر ڈالیں تو کپل دیو کو ہونے والے خطرات کی نوعیت جسمانی تھی، جس میں کسی فرد کا ان کے گھر تک جا پہنچنا شامل تھا۔ یہ صورت حال کسی بھی معاشرے میں سنگین تصور کی جاتی ہے، کیونکہ یہ نجی زندگی کی حدوں کو پار کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم، ہندوستانی میڈیا اور عوامی ردعمل میں اس واقعے کو زیادہ تر ایک “انفرادی واقعہ” قرار دے کر اس پر قانونی کارروائی تک محدود رکھا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں کرکٹرز کو قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے، اور ان کے خلاف کسی بھی تشدد کی کوشش کو قومی عزت کے خلاف حملہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب بابر اعظم کے والد کے بیانات کو لے کر جو ہلچل مچی ہے، وہ زیادہ تر سیاسی اور سماجی تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں جہاں کرکٹرز کی نجی زندگی اکثر تنقید کا نشانہ بنتی ہے، وہیں خاندانی افراد کے تاثرات بھی قومی مکالمے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بابر کے والد کی باتوں کو کسی خاص نظریے یا گروہ کی ترجمانی سمجھا گیا ہو، جس نے اسے متنازع بنا دیا۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں کرکٹ اور سیاست کا گہرا تعلق بھی معاملات کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کھلاڑیوں کے خاندانوں کو ان کی ذاتی رائے کا اظہار کرنے کا حق نہیں؟ اور اگر کپل دیو کے گھر جانے والے واقعے کو “انفرادی” قرار دیا جا سکتا ہے، تو پھر بابر کے والد کے بیانات کو اتنی توجہ کیوں مل رہی ہے؟ شاید اس کا جواب میڈیا کلچر اور سماجی حساسیت کے فرق میں پوشیدہ ہے۔ ہندوستان میں کرکٹ ایک “مذہب” ہے، جہاں کھلاڑیوں کو مقدس مانا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں کرکٹ اکثر سیاسی اور سماجی مسائل کا آئینہ دار بن جاتی ہے۔

مزید یہ کہ سوشل میڈیا کا رول بھی اہم ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر تنقید کی لہریں تیز ہوتی ہیں، جبکہ ہندوستان میں ادارہ جاتی میڈیا واقعات کو کور کرنے میں زیادہ محتاط رہتا ہے۔ دونوں ممالک کے عوامی ردعمل کا فرق شاید اسی کلچرل اور میڈیا ڈسکورس کی عکاسی کرتا ہے۔

آخر میں، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ خواہ کپل دیو ہوں یا بابر اعظم، کھلاڑیوں کے خاندانوں کو بھی نجی زندگی کا حق حاصل ہے۔ چاہے خطرات جسمانی ہوں یا بیانات پر تنقید، دونوں صورتوں میں احترام اور تحمل کا رویہ ہی معاشرے کو صحیح سمت دکھا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھیلوں کو ذاتی مفادات یا تنازعات کا میدان بنانے کے بجائے، انسانی عظمت کو فوقیت دی جائے۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں