More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

جناب سنیل گواسکر پاکستان نے سی کیٹیگری ٹیم کھیلائی، ٹیم انڈیا کا کمال نہیں

جناب سنیل گواسکر پاکستان نے سی کیٹیگری ٹیم کھیلائی، ٹیم انڈیا کا کمال نہیں
آفتاب تابی
آفتاب تابی

“سر سنیل گواسکر ٹیم انڈیا کا کمال نہیں، پاکستان نے اپنی سی ٹیم چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلائی”

کچھ لوگوں کو تو ہر موسم میں ہوا کے رخ پر تھوکنا ہی پسند ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ہوا اُن کے چہرے پر ہی وار کرے، تب بھی اُن کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ “ہم نے جان بوجھ کر اپنی تھوک کو ہوا کا رخ دیا تھا۔” بالکل یہی معاملہ کچھ دوستوں کا ہے جو ٹیم انڈیا کے کمال کو “کمال” ماننے سے انکاری ہیں اور پاکستان کی سی ٹیم کے چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلنے کو اپنی “کامیابی” کا سرٹیفکیٹ سمجھتے ہیں۔ چلیں، آج ہم ان کے اس فلسفے کو تھوڑا سا سلجھاتے ہیں۔

“سر سنیل گواسکر ٹیم انڈیا کا کمال نہیں”
سب سے پہلے تو سر سنیل گواسکر کے نام کے ساتھ جو “سر” لگایا گیا ہے، اُس پر ہی ایک نظر ڈال لیں۔ یہ “سر” کیا چیز ہے؟ کیا یہ کوئی نائٹ ہُڈ کا خطاب ہے؟ یا پھر اُن کی ٹیم کے کپتان ہونے کا اعزاز؟ یاد رہے، سنیل گواسکر وہ بلے باز تھے جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے تیوروں والے فاسٹ بولرز کے سامنے بھی اپنا بیٹ گاڑے رکھا۔ اُن کے دور میں ہیلمٹس اور پیڈز بھی شاید اتنی مضبوط نہیں ہوتے تھے، لیکن اُن کا جذبہ اتنا بلند تھا کہ ویو رچرڈز جیسے کھلاڑی بھی اُن کے سامنے بولنگ کرتے ہوئے سوچتے ہوں گے کہ “یہ بابا تو ہمیں ہی پچھاڑ دیں گے۔” لیکن ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ سب “کمال” نہیں تھا۔ تو پھر کیا تھا؟ کیا یہ کوئی “عام” کارنامہ تھا؟ اگر ایسا ہے تو پھر آج تک کوئی دوسرا “عام” کھلاڑی ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچوں میں اوسط 65 کے قریب کیوں نہیں بنا پا رہا؟ شاید یہ “عام” کارنامے کرنے والے کھلاڑی اب صرف پاکستان کی سی ٹیم میں ہی موجود ہیں۔

پاکستان کی سی ٹیم اور چیمپیئنز ٹرافی کا معجزہ
اب آتے ہیں دوسرے نکتے پر: “پاکستان نے اپنی سی ٹیم چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلائی۔” سب سے پہلے تو یہ طے کریں کہ سی ٹیم کی تعریف کیا ہے۔ کیا یہ وہ ٹیم ہے جس میں وہ کھلاڑی شامل ہوتے ہیں جو اے ٹیم میں جگہ نہیں بنا پاتے؟ یا پھر وہ جو بی ٹیم میں بھی نہیں چُنے جاتے؟ اگر ایسا ہے تو پھر 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے جس ٹیم کے ساتھ کھیلا، اُسے سی ٹیم کہنا کسی اور ہی کھیل کی بات لگتی ہے۔ فائنل میں انڈیا کو 180 رنز سے شکست دے کر ٹرافی جیتنا کوئی “سی ٹیم” والا کام نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے دوستوں کا اصرار ہے کہ یہ سی ٹیم تھی۔ تو جناب، اگر یہ سی ٹیم تھی تو پھر اے ٹیم کیا کرتی؟ کیا وہ ٹیم چاند پر کرکٹ کھیلنے چلی گئی تھی؟ یا پھر اُن کے پاس “اے ٹیم” کا درجہ حاصل کرنے کے لیے صرف یہی شرط تھی کہ وہ فلاں فلاں کوچ کی پسندیدہ چائے بنانا جانتی ہو؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم نے 2017 میں شاندار کھیل دکھایا، لیکن اُسے سی ٹیم کہنا اُس ٹیم کے ساتھ زیادتی ہے۔ فخر زمان جیسے نوجوان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، محمد عامر نے کلاسیکل بولنگ کی، اور حسن علی نے ٹورنامنٹ کی بہترین بولنگ کا اعزاز حاصل کیا۔ اگر یہ سب سی ٹیم کے کھلاڑی ہیں تو پھر اے ٹیم کے کھلاڑی کون ہیں؟ شاید وہ جنہیں ہم نے اب تک ٹیم میں شامل ہی نہیں ہونے دیا۔ یا پھر وہ جو ہر میچ کے بعد ریٹائر ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں۔

ٹیم انڈیا کا “کمال” اور پاکستان کی “سی ٹیم” کا موازنہ
اب دونوں دعوؤں کو اکٹھا کر کے دیکھیں: ایک طرف تو ٹیم انڈیا کے کمال کو معمولی بتایا جا رہا ہے، دوسری طرف پاکستان کی سی ٹیم کو چیمپیئنز ٹرافی کا ہیرو بنا دیا گیا ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر انڈیا کا کمال واقعی کوئی کمال نہیں ہے تو پھر پاکستان کی سی ٹیم کا یہ کارنامہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے آئینے کا کام کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، سنیل گواسکر نے اپنے کیریئر میں 34 ٹیسٹ سنچریاں اس وقت بنائیں جب کھیل کا معیار آج جتنا آسان نہیں تھا۔ آج کل کے کھلاڑیوں کو فلٹ پچوں، ہلکے بلے، اور ہیلمٹس جیسی سہولیات میسر ہیں۔ لیکن اُس دور میں پچیں غیر متوقع ہوتی تھیں، اور بولرز کا رویہ بھی کچھ ایسا تھا کہ وہ آپ کو “باؤنسر” دے کر خود ہی پوچھتے تھے: “کیا ہوا؟ کیا بال نے آپ کو چھو لیا؟” لیکن گواسکر نے اِن سب کے باوجود اپنا لوہا منوایا۔ اگر یہ “کمال” نہیں تو پھر کیا ہے؟ کیا یہ صرف “شاندار” کارکردگی تھی؟ اگر ہاں، تو پھر پاکستان کی سی ٹیم کا چیمپیئنز ٹرافی جیتنا بھی محض “شاندار” کارکردگی ہی کہلانی چاہیے، “معجزہ” نہیں۔

“سی ٹیم” والی بات کرنے والوں کو کیا کہیں؟
جناب، یہ جو آپ پاکستان کی ٹیم کو سی ٹیم کہہ کر اُس کی کامیابی کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، دراصل یہ آپ کی اپنی ٹیم کی صلاحیتوں پر شک کا اظہار ہے۔ اگر آپ کی اے ٹیم اتنی ہی مضبوط ہے تو پھر سی ٹیم کو موقع دیا ہی کیوں گیا؟ کیا یہ آپ کے سلیکٹرز کی نااہلی ہے کہ اُنہوں نے اچھے کھلاڑیوں کو نظر انداز کر دیا؟ یا پھر آپ کی اے ٹیم اتنی “مصروف” تھی کہ اُسے چیمپیئنز ٹرافی میں کھیلنے کا وقت ہی نہیں ملا؟

دوسری طرف، ٹیم انڈیا کی کامیابیوں کو نظر انداز کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ “تمہارا امتحان میں اول آنا کوئی بڑی بات نہیں، تمہاری کلاس کے باقی طالب علم تو سو رہے تھے۔” جی ہاں، بالکل یہی منطق ہے۔ اگر انڈیا نے کامیابیاں حاصل کی ہیں تو اُس کی وجہ محنت، منصوبہ بندی، اور کھلاڑیوں کی لگن ہے۔ اور اگر پاکستان نے کسی ٹورنامنٹ میں اچھا مظاہرہ کیا ہے تو اُسے بھی سراہا جانا چاہیے۔ لیکن دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کر کسی ایک کی کامیابی کو کم تر ثابت کرنا صرف “انڈیا بمقابلہ پاکستان” والی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

آخری بات: کرکٹ ایک کھیل ہے، جنگ نہیں
اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کرکٹ کو کبھی بھی جنگ کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔ ہاں، مقابلہ ضرور ہو، لیکن اس میں کسی کی محنت کو کم نہ سمجھا جائے۔ ٹیم انڈیا نے اپنی تاریخ میں جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ اُس کے کھلاڑیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی کئی مواقع پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن جب ہم ایک ٹیم کی کامیابی کو دوسری کی ناکامی سے جوڑنے لگتے ہیں، تو یہ کرکٹ کی روح کے خلاف ہے۔

تو جناب، اگلی بار جب آپ ٹیم انڈیا کے “کمال” پر انگلی اٹھائیں، تو سنیل گواسکر کے ریکارڈز کو دوبارہ دیکھ لیں۔ اور جب پاکستان کی “سی ٹیم” کی بات کریں، تو اُن نوجوان کھلاڑیوں کی محنت کو سلام پیش کریں جو موقع ملنے پر پوری دنیا کو حیران کر دیتے ہیں۔ باقی، کرکٹ تو ایک کھیل ہے۔ جیت ہار اِس کا حصہ ہیں۔ بس، کھیل کو کھیل کی طرح ہی لیا کریں۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں