More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

کیا پاکستان اسلامک چیمپیئنز شپ کو جیتنے کے بھی قابل نہیں رہا؟

کیا پاکستان اسلامک چیمپیئنز شپ کو جیتنے کے بھی قابل نہیں رہا؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستان کرکٹ کی تاریخ جیت، جذبے، اور جلال سے بھری پڑی ہے۔ 1992 کا ورلڈ کپ ہو، 2009 کی T20 چیمپیئن شپ ہو، یا پھر ایشیا کپ کے متعدد ٹرافی کابینے—ہماری ٹیم نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مگر آج صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پرفارمنز گراوٹ کا شکار ہوئی ہیں، بلکہ یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ کیا ہم اسلامی ممالک پر مشتمل کسی فرضی چیمپیئن شپ جیسے مقابلے میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے؟ یہ سوال محض کھیلوں کی حد تک نہیں، بلکہ ہمارے نظام، انتظامیہ، اور کھلاڑیوں کی ذہنیت پر ایک طنز ہے۔

2020 کے بعد سے پاکستان کرکٹ مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ ٹی20 ورلڈ کپ 2022 کے فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست، ایشیا کپ 2023 میں افغانستان جیسے “ابھرتے ہوئے” ٹیم کے سامنے ناکامی، اور آئی سی سی رینکنگ میں گراوٹ—یہ سب ہماری کمزوریوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ خاص طور پر افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے اسلامی ممالک کے خلاف حالیہ میچز میں ہماری کارکردگی نے مایوسی کو جنم دیا ہے۔

افغانستان نے حالیہ دہائی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ رشید خان، محمد نبئی جیسے کھلاڑیوں نے نہ صرف IPL بلکہ عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا۔ 2023 میں پاکستان کے خلاف ان کی پہلی ODI جیت ہمارے لیے ایک المیہ تھی۔ بنگلہ دیش نے 2015 کے بعد سے اپنی ٹیم کو مضبوط بنایا ہے۔ مشرفی، تمیم، اور شکب الحسن جیسے کھلاڑیوں کی وجہ سے وہ اب “ڈراؤنے خواب” بن چکے ہیں۔ خلیجی ممالک میں کرکٹ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ UAE اور سعودی عرب جیسی ٹیمیں اپنی انفراسٹرکچر اور نوجوانوں کی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

پی سی بی میں کثرت سے تبدیلیاں، کپتان اور کوچز کے مسائل، اور پالیسیوں کے فقدان نے ٹیم کو عدم استحکام میں دھکیل دیا ہے۔ مثال کے طور پر، 2023 میں چار مختلف کپتان کی تبدیلی نے کھلاڑیوں کے حوصلے متاثر کیے۔ ہمارے ڈومیسٹک سسٹم میں کھلاڑیوں کو بین الاقوامی دباؤ کے لیے تیار نہیں کیا جاتا۔ لاہور، کراچی، اور اسلام آباد کے لیگ پر انحصار کرنے والا نظام نئی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں ناکام ہے۔ کرکٹ بورڈ کے مالی اسکینڈلز اور اسپانسرشپ کے تنازعات نے ٹیم کی ترقی کو روکا ہے۔

شعیب ملک جیسے کپتانوں کے بعد قیادت کا معیار گر گیا ہے۔ شاہین آفریدی جیسے اہم کھلاڑی اکثر زخمی رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ٹیم غیر متوازن ہو جاتی ہے۔ سماجی میڈیا کے تنقیدوں اور قومی توقعات کا بوجھ کھلاڑیوں کے لیے مشکل بنا دیتا ہے۔

پاکستان نے ڈھاکہ میں افغانستان کو 8 وکٹوں سے ہرا دیا۔ یہ میچ ہماری بولنگ اور فیلڈنگ کی خامیوں کو بے نقاب کر گیا۔ حال ہی میں ڈھاکہ میں ہونے والی سیریز میں پاکستان نے 2-1 سے شکست کھائی، جس میں نوجوان کھلاڑیوں کی نااہلی واضح ہوئی۔

علاقائی اکیڈمیوں کو جدید بنائیں۔ کوچنگ اسٹاف میں غیر ملکی ماہرین شامل کریں۔ پی سی بی میں پیشہ ورانہ لوگوں کو مواقع دیں۔ طویل المدتی پالیسیاں بنائیں۔ U-19 اور اے ٹیم کو بین الاقوامی ایکسپوژر دیں۔ کھلاڑیوں کے لیے ماہر نفسیات مقرر کریں۔

پاکستان کرکٹ کے پاس صلاحیت موجود ہے، مگر اسے نکھارنے کے لیے محنت، ایمانداری، اور ویژن درکار ہے۔ اگر ہم اپنے نظام کی اصلاح کریں، نوجوانوں کو مواقع دیں، اور قیادت کو بہتر بنائیں، تو نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ عالمی سطح پر بھی ہم اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ قوم کی دعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں—اب صرف عمل کی ضرورت ہے۔

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں