کیا ہاکی کی طرح کرکٹ کی بھی تباہی یقینی ہو چلی ؟
پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے، مگر اِس کی تاریخ ایک المیے سے کم نہیں۔ وہ ہاکی جو کبھی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھی، آج اپنی موت آپ مر رہی ہے۔ سٹیڈیم ویران ہیں، کھلاڑی بے روزگار ہیں، اور انتظامیہ کے غلط فیصلوں نے اِس کھیل کو قبرستان تک پہنچا دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کرکٹ، جو پاکستان کا “اصل” قومی کھیل بن چکا ہے، اِسی راستے پر چل پڑا ہے؟ کیا ہماری نسل کو اپنے بچوں کو بتانا پڑے گا کہ “کبھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھی دنیا کی طاقت ہوا کرتی تھی”؟
1960 سے 1994 تک پاکستانی ہاکی ٹیم نے 3 اولمپک گولڈ میڈل، 4 ورلڈ کپ ٹائٹلز، اور 8 چیمپئنز ٹرافی جیتیں۔ سٹک کے ساتھ کھیلنے والے جاوید اکبر، حسن سردار، اور شہناز شیخ جیسے کھلاڑیوں نے پاکستان کو “ہاکی کا بادشاہ” بنا دیا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا؟
ہاکی فیڈریشن نے کبھی نوجوانوں کو پرموٹ نہیں کیا۔ کوچز کی تربیت پر توجہ نہ دی گئی۔ بیرون ملک ٹورنامنٹس میں شرکت کو سیاسی مفادات کا شکار بنا دیا گیا۔ جب کرکٹ نے ٹیلی ویژن اور کارپوریٹ سپانسرشپ کی شکل میں پیسہ کمانا شروع کیا، تو ہاکی کو “پرانا کھیل” سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا۔ ہاکی کے میدانوں پر کارخانے اور مالز بن گئے۔ نوجوانوں کے لیے کوچنگ اکیڈمیاں بند ہو گئیں۔
نتیجہ؟ آج پاکستانی ہاکی ٹیم ورلڈ رینکنگ میں 18 ویں نمبر پر ہے۔ اولمپک کوالیفیکیشن تک کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ اپنے سنہری دور سے گزر رہی ہے۔ 1992 کا ورلڈ کپ، 2009 کی T20 ورلڈ ٹرافی، شاہد آفریدی، وسیم اکرم، اور انضمام الحق جیسے لیجنڈز نے کرکٹ کو عوامی جنون بنا دیا۔ مگر پچھلے دس سالوں میں، یہ کھیل بھی اُن خطرناک راہوں پر چل پڑا ہے جو ہاکی کو تباہی کی طرف لے گئیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کی تاریخ افراتفری، اقربا پروری، اور سیاسی مداخلت سے بھری پڑی ہے۔ ہر نیا چیئرمین اپنی “ذاتی پالیسی” لے کر آتا ہے۔ کپتانوں کو گھٹیا طریقے سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ کوچز کو عوامی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو ہاکی فیڈریشن کو تباہ کر گیا۔
2023 میں، PCB نے صرف ایک سال کے اندر چار مختلف کپتان تبدیل کیے۔ یہ غیر مستحکم فیصلے ٹیم کے اعتماد کو کیسے بحال کر سکتے ہیں؟
پاکستان میں صرف تین بین الاقوامی معیار کے اسٹیڈیمز ہیں۔ مقامی کرکٹ کا نظام بدترین ہے۔ کوچنگ سینٹرز پر غربت کے مارے نوجوانوں کو بغیر کسی سہولیات کے کھیلنا پڑتا ہے۔ یہی حال ہاکی کے میدانوں کا تھا۔
کرکٹ آج کل ایک کاروبار ہے۔ مگر PCB ٹی وی حقوق، سپانسرشپ، اور ٹورنامنٹس سے کمائے گئے پیسے کو کھلاڑیوں کی بہتری پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ ہاکی فیڈریشن بھی یہی کرتی تھی۔
2022 میں، PCB نے 50 کروڑ روپے صرف اپنے ملازمین کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے پر لگا دیے، جبکہ مقامی کرکٹرز کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں۔
پاکستانی عوام کبھی کرکٹ کے لیے جیتے مرتے تھے۔ آج ٹی وی پر دیکھنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ وجہ؟ ٹیم کا غیر مستقل مزاج پن۔ نوجوان ستاروں کی بجائے، ہمیں صرف سیاسی مباحثے اور بازاروں میں جھگڑے دکھائے جاتے ہیں۔
2023 کے ایشیا کپ کے دوران، ٹیم کی ناکامی پر میڈیا نے صرف وشعت اختر کے بالوں اور بابر اعظم کی گاڑی پر بحث کی۔ کھیل کہیں گم ہو گیا۔
ہاکی اور کرکٹ کے بحران میں ایک بڑا فرق ہے: ٹی20 لیگز۔ پی ایس ایل نے نوجوانوں کو موقع دیا ہے۔ شاہین آفریدی، محمد رضوان، اور ناصر جونیئر جیسے کھلاڑی غریب گھرانوں سے نکل کر عالمی شہرت پا رہے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو ہاکی میں کبھی نہیں ہوئی۔
مگر پی ایس ایل بھی اب اپنی چمک کھو رہی ہے۔ زیادہ توجہ شوبز اور ڈراموں پر ہے۔ میچز کے نتائج سے زیادہ، ٹک ٹاک پر وائرل ہونے والے کلپس اہم ہو گئے ہیں۔
جی ہاں! مگر شرط یہ ہے کہ:
PCB کو سیاست سے آزاد کیا جائے۔
مقامی کرکٹ پر سالانہ بجٹ کا 70% خرچ کیا جائے۔
کھلاڑیوں کو ٹیم کی بھاگ دوڑ میں حصہ دار بنایا جائے۔
عوامی توجہ کھیل پر مرکوز رکھی جائے، نہ کہ ڈراموں پر۔
ہاکی کی تباہی ہمیں بتاتی ہے کہ “عظمت رفتہ” کو بحال کرنا ناممکن نہیں، مگر انتھک محنت چاہیے۔ کرکٹ ابھی زندہ ہے، مگر اِس کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔ کیا ہم وہ قوم ہیں جو اپنے کھیلوں کو مرنے دیتی ہے، یا پھر اُنہیں نئی زندگی بخشتی ہے؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں