دوروں کا دور دورہ
ابھی ابھی ایک دوست کا فون آیا کہتا بہت پریشان ہوں۔ میرے دورے بند ہو گئے ہیں۔ ہم نے کہا کیا بات کرتے ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ڈپریشن کے دوروں سے جان چھوٹ گئی ہے اب تمہاری صحت کے معاملات زیادہ بہتر ہو جائیں گے۔ وہ فورا نہیں حافظ صاحب میں دوسرے دوروں کی بات کر رہا ہوں۔ ہم نے پوچھا کیا ڈپریشن کے علاوہ کوئی اور دورہ بھی پڑتا تھا پہلے کبھی نہیں بتایا ہمیں تو صرف ڈپریشن کے دوروں کا ہی علم تھا۔ دوست جھنجھلا کر بولا نہیں نہیں نہیں۔ آپ سمجھ نہیں رہے یہ وہ دورے نہیں ہیں۔ ہم نے پھر پوچھا بھئی بتاو پھر کونسے دورے بند ہو گئے ہیں۔ وہ بولا حافظ صاحب دفتر نے میرے بیرون ملک دورے بند کر دیے ہیں۔ ہم نے قہقہ لگایا اور کہا اسکا مطلب ہے کہ بیرون ملک دورے بند ہونے کی خبر سے تمہیں” دورے” پڑ رہے ہیں۔ کہتا بس ایسے ہی سمجھ لیں بہت بری حالت ہے۔ اچھی خاصی تفریح کا موقع چھن گیا ہے۔ کچھ مالی فائدہ بھی ہوتا تھا بیرون ملک دوروں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ جاری رہتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ ہم نے مذاق میں کہا کہ یہ خبر تو تمہارے دفتر کے ان تمام لوگوں کے لیے “دوروں” کا باعث ہو گی جو بیرون ملک دوروں پر جاتے تھے۔ کہنے لگا کہ آپکو مذاق سوجھ رہا ہے میں سنجیدہ ہوں۔ ہم نے کہا سنو اس خبر سے تمہارے دفتر میں بہت سے لوگوں کو خوشی کے دورے بھی پڑ رہے ہونگے تم جو سال میں دو تین دفعہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ بیرون ملک موج میلہ کرنے چلے جاتے تھے۔ مسلسل مذاق پر ہمارے دوست نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ حافظ صاحب آپکو ایسے دورے پڑیں گے تو پتہ لگے گا۔
اس گفتگو کے بعد خاصا وقت ہم محظوظ ہوتے رہے پھر اچانک خیال آیا کہ ان دنوں تو پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلی عہدیداروں کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات اور اس پر اٹھنے والے اخراجات پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ہیں حیران کن طور پر پی سی بی کے گورننگ بورڈ کے ایک رکن کیطرف سے دو ہزار پندرہ میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں کھیلے جانیوالے عالمی کپ کے لیے میچز دیکھنے کے لیے جانے سے انکار کے باوجود ان کے نام چار لاکھ پچھتر ہزار روپے جاری ہونے کا ذکر موجود ہے۔ تفصیلات کیمطابق گورننگ بورڈ اراکین کے غیر ملکی دوروں پر لگ بھگ پونہ کروڑ خرچہ ہوا ہے۔ یہ تو گورننگ بورڈ اراکین کی بات ہے دیگر اعلی عہدیداروں کے بیرون ممالک دوروں کی خبریں اور اس حوالے سے باتیں پارلیمنٹ کی راہداریوں میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان ہاکی فیڈریشن کی سابق انتظامیہ کے حوالے سے بھی ایسی ہی خبریں سامنے آئیں جب غیر متعلقہ افراد کو فیڈریشن کے خزانے یعنی سرکاری خزانے سے بیرون دورے کروائے گئے۔ اس وقت یہ صورتحال دیکھ کر جن لوگوں کو دورے پڑتے تھے آج وہ خود ہاکی فیڈریشن کے فنڈز سے غیر ملکی دورے کرتے ہیں۔ تعداد بھلے کم ہو لیکن دورے ضرور ہو رہے ہیں۔ یہ بحث الگ ہے اس مشق کا کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ بہرحال اس پر بعد میں بات کریں گے۔ لیکن یہ تو ایک حقیقت ہے کہ سرکاری مال پر صرف کھیلوں کی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ تمام بااختیار اور صاحب اقتدار شخصیات کے دوروں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کا ذکر ہوتا ہے اور اسکی تفصیلات سامنے آتی ہیں تو اچھے بھلے انسان کو بھی بے ہوشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اگر بات صرف کرکٹ بورڈ کے اعلی عہدیداروں کے دوروں کی تفصیلات کے حوالے سے کی جائے تو یہ پی سی بی کے لیے معمول کی بات ہو گی کیونکہ یقینا بہت سے دورے ضروری بھی ہوتے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ گورننگ بورڈ کے آخری اجلاس میں “وی آئی پی” شخصیات کو بھی کرکٹ بورڈ کے خرچے پر بیرون ملک دوروں کی تجویز کیوں پیش کی گئی کہیں ایسا تو نہیں کہ پارلیمنٹ کے معزز اراکین کو دوروں کی تفصیلات کا جائزہ لینے اور بغور مطالعہ کیبعد دل للچایا ہو کہ جب سب کو دوروں کا دلفریب مرض لاحق ہے تو ہم کیوں نہ ان دوروں کے مریض خاص بنیں۔ حالانکہ اقبال محمد علی نے واضح طور پر وقت نیوز کے پروگرام گیم بیٹ میں اس تاثر کو رد کیا لیکن پھر بھی جو تجویز گورننگ بورڈ کے اجلاس میں اہم شخصیات کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ دوروں کے وبائی مرض میں مبتلا ہونیکے خواہشمند اور بھی ہیں۔ اب پاکستان سپر لیگ کو ہی لے لیں اس کے پہلے ایڈیشن کی کامیابی کیبعد منتظمین کو اسے فورا کمپنی بنانے کا دورہ پڑا اس مقصد میں ابھی تک تو کامیابی ملی ہے گو کہ یہ مشق متنازع ہوئی اور اسے مزید تنازعات سے بچانے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم عزیز سیٹھی کو ملک گیر دوروں کا آغاز کرنا پڑا۔ امید ہے کہ نجم سیٹھی کے ان دوروں سے پی ایس ایل اس متنازعہ دور سے ضرور نکلے گی۔ ویسے تو کرکٹ بورڈ نے صحافیوں کے بیرون ملک دورے بھی بند کر رکھے ہیں لیکن سال عوام کے شروع میں تو پاکستان سپر لیگ کے دوران ملک بھر کے صحافیوں کو متحدہ عرب امارات کا دورہ کروایا گیا تھا صحافی کوریج بھی کرتے رہے دوستوں کیساتھ فراغت کے لمحات سے بھی لطف اندوز ہوئے یار لوگوں نے اکٹھے ہو کر ڈیزٹ سفاری کا دورہ بھی کیا۔ جب بہت سے صحافی متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے پاکستان میں رہ جانیوالوں کو دورے پڑ رہے تھے کہ ان سب کو بھیج دیا ہے تو ہمیں بھیجتے ہوئے کیا ” دورہ” پڑتا تھا۔ ویسے بھی ہم مجموعی طور پر “دوروں” کے قومی مرض میں مبتلا ہیں۔ کسی کو ترقی کرتا دیکھ کر دورے پڑتے ہیں تو کسی کی خوش لباس دوروں کا سبب بنتی ہے اکثر اوقات قومی ٹیم کی کارکردگی بھی شائقین کرکٹ کو دورے پڑتے ہیں۔ کوئی اپنا ٹیلی وژن توڑ دیتا ہے تو کوئی برتن اٹھا کر پھینکتا ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں