رمیض راجہ سے تصوراتی انٹرویو
صاحب آج ایک مدت کے بعد قلم پکڑا تو قلم ہی سراپا احتجاج ہوگئی کہ اتنی مدت کے بعد کیوں میرا گلہ دبانے لگے ہو ؟ میں نے قلم سے عرض کی بے فکر رہو میں گالیاں نہیں بلکہ چیئرمین پی سی بی رمیض راجہ کا تصوراتی انٹرویو لکھنے لگا ہوں تو قلم بولی بیس سال بعد پھر تصوراتی دنیا میں واپس آ گئے تابی میاں تو میں عرض کی مجبوری ہے کیونکہ بیس سال بعد رسائی کا وہی عالم ہے،دیواریں ہیں کہ شاہی قلعے کی طرح اونچی سے اونچی تر ہوتی جا رہی ہیں، پی سی بی کے میڈیا ترجمانوں کی بارات صحافیوں کے لیے سہولت کار کی بجائے رکاوٹی آلہ کار بنتی جارہی ہے تو قلم بولی مگر یہ سلسلہ تو نجم سیٹھی کے زمانے سے ہی شروع ہوگیا تھا اور تم لاہور کے صحافیوں کی اتنی ہی اہمیت تھی جتنی آج کل سیاسی رواداری کی ہے، جی قلم صاحبہ آپ درست فرما رہی ہیں اگرچہ سیٹھی صاحب کے دور میں ہی ایک سچی خبر پر مجھے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے مگر اس وقت کی دیواریں اس قدر مضبوط نہیں تھیں کہ اندر کی آواز کراچی میں تو سنی جا سکتی ہے مگر لاہور میڈیا کی دوڑیں ہی لگی رہتی تھیں، اچھا چھوڑو نا راجہ صاحب کا تصوراتی انٹرویو کرنے دو گی یا نہیں، تابی جی اگر آپ نے اتنے عرصے بعد اگر تصوراتی انٹرویو کی ٹھان ہی لی ہے تو میری گردن بھی حاضر ہے اور خون بھی
رکو رکو تابی یہ ذہن نشین کر لو کہ پی سی بی میڈیا ٹیم کسی جاسوس سے کم نہیں، یاد ہے نا بابر اعظم کی پرنٹ میڈیا سے گفتگو میں تمہارے کسی بہت ہی پیارے کی نشاندہی پر ایک دوسرے پیارے نے بلی کے پاوں کی طرح دروازہ کھولا اور اشارہ کر دیا کہ تابی بابر کا ویڈیوانٹرویو نہ کرنے پائے اور ایسا ہی ہوا اور اس پیارے نے تمہارے پیارے کو قہقہے لگا لگا کر اپنی پراگریس رپورٹ فاتحانہ انداز میں بتائی
قلم جی تم تو پی سی بی کے جاسوسوں سے بھی ذیادہ تیز ہو، بے فکر رہو میں راجہ صاحب کو جم سیشن کے بعد منانے کی کوشش کروں گا
تو صاحبو میں بچتا بچاتا نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر پہنچا اور گروانڈ کی ٹاہلی دے تھلے بہہ کے راجہ صاحب کا انتظار کرنے لگا جیسے ہی راجہ صاحب جم سے باہر نکلے تو میں نے سلام کیا جواب میں سلام کے ساتھ یہ پوچھا گیا کہ تم یہاں تک پہنچے کیسے اور کیوں ؟ میں نے عرض کی بس جی پہنچ ہی گیا اور آپکا انٹرویو درکار ہے
وہ تو میں کسی کو بھی نہیں دے رہا اگر کسی کو دیا تو بتاو اور تم نے پنجابی میں انٹرویو کرنا اور مجھے پنجابی میں صرف ،،،،،، آتی ہیں
وہ مجھے آپ سے ذیادہ آتی ہیں کپتان جی مگر میں نے اردو میں کرنا ہے
میاں اس کے لیے برنی سے بات کرو
کپتان آج کل جس کے نام کے اختتام ” ی ” وہ کوئی بات مانتا ہی نہیں
کیا مطلب ؟
چھوڑیں میں سیاہ ست پر بات کر کے گالیاں نہیں کھانا چاہتا
ہاہاہاہاہا سمجھ گیا اچھا پوچھو کیا پوچھنا ہے مگر یہ ذہن میں رکھو میں کہیں نہیں جا رہا
جی کپتان جی میں ذہن کے اشٹام پیپر پر لکھ لیا ہے کہ آپ کہیں نہیں جارہے میں تو چند مسائل پر آپ کی توجہ چاہتا ہوں
ایک تو تم صحافی لوگوں کے مسائل ہی ختم نہیں ہوتے اچھا چلو تم کو پانچ سوال کرنے کی اجازت ہے
بہت شکریہ راجہ صاحب یہ دوسرے ٹیسٹ میں آغا سلمان کی بجائے سابق کپتان کو باہر بٹھا دیا کیوں ؟
یہ سوال وسیم سے کرو مجھ سے نہیں
وسیم اکرم سے ؟
انٹرویو لینا ہے کہ نہیں ؟ میں محمد وسیم کی بات کر رہا ہوں اسی لیے میں تم لوگوں سے دور رہتا ہوں کہ تم لوگ کوئی نہ کوئی پنگا ضرور لے جاتے ہو پی ایس ایل ڈرافٹ پہ کہہ بھی چکا ہوں کہ اگر وسیم اکرم سمجھتے ہیں کہ میں آل ان آل ہوں تو ہاں میں ہوں
تو پھر محمد وسیم کاغذی چیئرمین سلیکشن کمیٹی ہوئے نا کپتان جی ؟
ہر گز نہیں میں کپتان بابراعظم کو اتنا با اختیار کر دیا ہے کہ وہ میری ہر بات مانتا ہے سمجھ آئی ؟
جی جی کپتان جی سب سمجھ گیا
ویسے بھی میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسی ٹیم بنے جو ہم عمروں کی ہو تاکہ کھلاڑی آپس میں گھل مل سکیں ایک دوسرے سے اپنے مسائل بیان کر سکیں اور کپتان پر یکجان ہو کر اعتماد کر سکیں، دھڑے بندی کا خاتمہ ہو، تم نے دیکھا نہیں کہ نوجوان ٹیم نے دنیائے کرکٹ کی بڑی بڑی ٹیموں کو پچھاڑ ڈالا ہے، اب ٹیم میں تین دوست والی روایت ختم کر دی ہے
اچھا کپتان جی اگر آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں، یہ ساجد خان کی چھٹی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ؟
مسٹر تابی اگر تم سمجھتے ہو کہ تم مجھ سے کوئی ” لیک ” لے لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے، یہ سوال بھی محمد وسیم سے پوچھو مجھ سے نہیں ہاں ویسے پھر کہتا ہوں کپتان مکمل با اختیار ہے اور مجھے اعتماد میں لیکر ہر فیصلہ کرتا ہے، مزید دو سوال رہ گئے ہیں
کرو
نہیں کپتان جی میں سوال پوچھتا ہوں کرتا نہیں، گال کی پچ پاکستانی پچوں سے کہیں کم درجے کی ہے پھر ہم نے پچوں کی بہتری کے لیے بھی گورے ماہر کی خدمات کیوں حاصل کی ہیں جبکہ پاکستانی کیوریٹرز انتہائی پڑھے لکھے اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹرز ہیں ؟ آپ سے پہلے دور میں بھی ایک گورا ماہر پچ آیا تھا کیا فرق پڑا ؟ مسئلہ شہروں کے انتخاب کا ہے پچوں کا نہیں، ہماری پچز تو پہلے ہی بہت گوری ہیں پھر ایک دفعہ گورے ماہر کی ضرورت کیوں ؟
دیکھو میاں پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی صدا نہیں رہنی ہاں کمنٹری میرا جنون اور بریڈ اینڈ بٹر ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس دور میں کچھ ایسا کر جاوں جو ہمیشہ یاد رکھا جائے اور اس کی قدر کی جائے یہ میرے کمنٹری کے دوران بننے والے تعلقات ہی ہیں کہ پی ایس ایل کرکٹ کے مہان کھلاڑی پاکستان آئے اور جو ٹیمیں پاکستان آنے میں خوف محسوس کرتی تھیں اب اس انتظار میں ہیں کہ کب دورہ پاکستان کریں تو ایسے میں اگر پچز عالمی سطح کی نہیں ہونگیں تو اس سے پاکستان کا تشخص پامال ہوگا میں مانتا ہوں کہ پی سی بی میں اب ماسٹر ڈگری ہولڈرز اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹر کیوریٹرز ہیں مگر گوروں کی نفسیات جتنی میں جانتا ہوں اتنی کوئی نہیں جانتا میں چاہتا ہوں کہ ایسی پچز بنیں جس سے یہ تاثر جائے کہ پاکستان نے اپنے مطلب کی پچ بنائی ہے
کپتان جی ہر ملک اپنے مطلب کی پچ بناتا ہے
بناتا ہوگا مگر میں ایسی پچز بنوانا چاہتا ہوں جو گوروں کے ہاتھوں بنیں تاکہ گوروں کو کوئی اعتراض نہ ہو اور پھر ان سے جیت کر ہم سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان تینوں فارمیٹ میں چوٹی کی ٹیم ہے، چلو آخری سوال پوچھو
یہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے تو کہا تھا کہ رمیض راجہ میری فورس کا بندہ ہے وہ پی سی بی چھوڑے نہ چھوڑے یہ اسکی صوابدید ہے، تو پھر انہوں نے آپ کو وٹس اپ پر بلاک کیوں کر دیا ؟
ہاہاہاہا وٹس اپ پر بلاک کیا ہے ایس ایم ایس پر نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں