ویلڈن ٹیم پاکستان
24 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ میں پاکستان کی ٹیم نے فتح حاصل کی تو پاکستان کی اس تاریخی فتح سے بے اختیار پورا پاکستان خوشی سے جھوم اٹھا
جب آپ کو ہر طرف سے مشکلات اور پریشانیوں نے گھیرا ہو اور اس وقت آپ اپنے سے کئی گنا مضبوط ٹیم کو ہرا دیں تو یقینا یہ کامیابی ایک تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی مانند ہوتی ہے کہنے کو تو پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان یہ صرف ایک کرکٹ میچ تھا مگر اس میچ کے ساتھ 22 کروڑ لوگوں کے جذبات جڑے ہوئے تھے اور سب کے لبوں پر صرف ایک ہی دعا تھی کہ ایک بار پاکستان بھارت سے ولڈکپ میں جیت جائے اور وہ جمود ٹوٹ جائے جو ایک تک نہیں ٹوٹا
پاکستان کی ٹیم ولڈکپ میں آنے سے پہلے ہی مختلف مشکلات میں پھنسی ہوئی تھی نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان سے واپس چلی گئی انگلینڈ کی ٹیم نے عین وقت پر پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہیڈ کوچ اور باولنگ کوچ نے ولڈکپ سے صرف دو مہینے پہلے اپنے استعفے دے دیے ٹیم کی متحدہ عرب امارات روانگی سے پہلے تک صرف یہ ہی بحث ہوتی رہی کہ فلاں کھلاڑی کو ٹیم میں ہونا چاہیے تھا اور فلاں کھلاڑی کو نہیں حتی کہ پہلے سے منتخب کردہ ٹیم میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں
اگر پاکستان کی ٹیم کا بھارت کی ٹیم سے موازنہ کیا جائے تو ایسے لگتا تھا کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دوہرانے میں کامیاب ہو گی اور پاکستان کی ٹیم بھارت سے یہ میچ نہیں جیت سکے گی حتی کہ کچھ سابق بھارتی کھلاڑیوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان کو یہ میچ نہیں کھیلنا چاہیے اور بھارت کو واک اوور دے دینا چاہیے کیونکہ پاکستان کی ٹیم یہ میچ نہیں جیت سکے گی مختصر یہ کہ ہر کوئی یہ ہی سمجھ رہا تھا کہ پاکستان کی ٹیم اس بار بھی ولڈکپ میں بھارت سے نہیں جیت سکے گی اور حقیقت میں چیزیں کچھ ایسی ہی نظر آ رہی تھیں بھارتی ٹیم کے کھلاڑی آئی پی ایل کی وجہ سے کافی دنوں سے متحدہ عرب امارات میں موجود تھے جس کی وجہ سے وہ پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ اس ماحول سے ہم آہنگ ہو چکے تھے
پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا ہر میچ دوسرے میچوں سے کافی منفرد ہوتا ہے اگرچہ پاکستان کی ٹیم نے بھارت کی ٹیم کو 2017 کے چیمپینز ٹرافی کے فائنل میچ میں شکست ضرور دی تھی مگر پاکستان کی ٹیم ولڈکپ میں کبھی بھی بھارت کی ٹیم کو ہرا نہیں سکی تھی اور ہر بار پاکستان کی ٹیم کے چاہنے والے دل پر پتھر رکھ کر صبر کر لیتے تھے اس میچ سے پہلے بھی اگرچہ دل یہ چاہتا تھا کہ پاکستان یہ میچ جیتنے مگر دماغ اس حقیقت کو تسلیم کر چکا تھا کہ اگر پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی تو صرف 30 فی صد کامیابی کے امکانات ہیں ہاں اگر پہلے پاکستان نے گیند بازی کی تو 80 فی صد تک پاکستان کی جیت کے امکانات ہو سکتے ہیں پھر جیسے ہی 24 اکتوبر کی شام دبئی کے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کرنے کا فیصلہ کیا تو دل کو تھوڑا حوصلہ ہوا کہ چلو پہلا مرحلہ تو طے ہوا اب پاکستانی ٹیم کے سامنے پہلا کام بھارت کی ٹیم کو کم از کم اسکور پر روکنا تھا اور بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے یہ کام کافی مشکل نظر آ رہا تھا مگر شاہین شاہ آفریدی نے اس مشکل کام کو آسان کر دیا اس ولڈکپ میں 10 نمبر کی جرسی پہن کر میدان میں اترنے والے شاہین آفریدی نے بھارت کے خلاف جس طرح کی گیند بازی کی اس سے بے ساختہ اقبال کا وہ شعر یاد آگیا کہ ” پلٹا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ
جس طرح سے شاہین شاہ آفریدی نے بھارت کی ٹیم کے ابتدائی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اس سے بھارت کی ٹیم کے ایک بڑا اسکور کرنے کے امکانات کافی حد تک کم ہو گے اگرچہ بھارتی کپتان نے ایک بار پھر شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا مگر وہ اپنی ٹیم کو ایک بڑے اسکور تک لے جانے میں کامیاب نا ہو سکے شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ ساتھ حارث رؤف نے بھی کافی اچھی گیند بازی کا مظاہرہ کیا بھارت کی باولنگ کو دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا کہ پاکستان کے لیے 152 رنز کا حدف اتنا آسان نہیں ہوگا مگر جس طرح کی بیٹنگ بابر اعظم اور محمد رضوان نے کی شاید ان کی تعریف کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں انہیں نے کسی بھی لمحے پر بھارتی گیند بازوں کو اپنے پر ہاوی نہیں ہونے دیا اور پاکستان کی ٹیم نے یہ حدف آسانی سے بغیر کسی وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا
پاکستان کی ٹیم پہلی بار ایسے لگا ایک ٹیم کے طور پر کھیل رہی ہے شاید اس بار سب کھلاڑیوں نے بھی یہ بات ٹھان لی تھی کہ ہم نے جیتنا ہے اور اس کے لیے چاہیے کچھ بھی کرنا پڑا
یقینا پاکستان کی بھارت کے خلاف اس فتح کا نفسیاتی طور پر بہت اثر ہو گا اور یہ ہے پاکستان کی ٹیم اب ولڈکپ میں اس سلسلے کو برقرار رکھے گی ویلڈن ٹیم پاکستان
اپنی رائے کا اظہار کریں